پس اِس کو اعتراض میں کیسے پیش کیا جاسکتاہے،اِس لئے کہ پھر یہی بات فریقِ مُخالف حضرت سفیانکی روایت کے بارے میں بھی کہہ سکتا ہے۔
﴿ خلفاءِ راشدین اور دیگرصحابہ کرام کا عمل ﴾
(7)ـــساتویں دلیل:حضرت عُمر اورحضرت علیکا عمل:
”عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ:كَانَ عُمَرُ وَعَلِيٌّ لَا يَجْهَرَانِ بِ{بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ}وَلَا بِالتَّعَوُّذِ,وَلَا بِالتَّأْمِيْنِ“۔(شرح معانی الآثار:1208)
ترجمہ:حضرت ابو وائل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر اور علی تسمیہ ، تعوذ اور آمین بلند آواز میں نہیں کہا کرتے تھے ۔
”عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ:قَالَ عُمَرُ:أَربَعٌ يُخْفَيْنَ عَنِ الْإِمَامِ: التَّعَوُّذُ،وَبِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحيْمِ،وَ آميْن،وَاَللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ “۔ (کنز العمال:22893)
ترجمہ:حضرت ابراہیم نخعیحضرت عمرکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں کہ چار چیزیں امام آہستہ کہے گا :تعوّذ، تسمیہ ،آمین اور اللّٰہم ربنا لک الحمد۔
(8)ـــآٹھویں دلیل:حضرت عبد اللہ بن مسعودکا عمل:
”عَنْ أَبِي وَائِلٍ،قَالَ:كَانَ عَلِيٌّ، وَابْنُ مَسْعُودٍ لَايَجْهَرَانِ بِبِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ،وَلَا بِالتَّعَوُّذِ، وَلَا بِآمِينَ“۔ (طبرانی کبیر:9304)
ترجمہ:حضرت ابووائل فرماتے ہیں کہ حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود تسمیہ تعوّذ اور آمین کو بلند آواز سے نہیں کہا کرتے تھے۔