طور پر ہرگز پیش نہیں کیا جاسکتا ۔اور ضعف کی وجہ یہ ہےکہ ”محمّد بن اسحاق“ایک ضعیف راوی ہیں،چنانچہ اُن کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال ملاحظہ کیجئے:
٭اِمام نسائی فرماتے ہیں:”ليس بالقوي“قوی نہیں ۔
٭اِمام دار قطنیفرماتے ہیں:”لا يحتج به“قابلِ اِستدلال نہیں ۔
٭اِمام ابوداؤدفرماتے ہیں:”قدري معتزلي“قدری اور معتزلی ہے۔
٭سلیمان التیمیفرماتے ہیں:”كذاب“جھوٹا ہے۔
٭اِمام مالکفرماتے ہیں:”دجال من الدجاجلة“دجالوں میں سے ایک دجال ہے۔(میزان الاعتدال:3/469)
(2)دوسری دلیل:
”عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:«لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ»“۔(بخاری:756)
ترجمہ:حضرت عُبادہ بن صامتسے مَروی ہےکہ نبی کریمﷺنے اِرشاد فرمایا:اُس شخص کی نماز نہیں ہوتی جس نےسورۃ الفاتحہ نہیں پڑھی۔
جواب:
یہ روایت اگرچہ صحیح ہے لیکن اِمام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ کے پڑھنے کے بارے میں صریح نہیں ،اِس لئے کہ اِس سے زیادہ سے زیادہ سورۃ الفاتحہ کا پڑھنا ضروری ثابت ہورہا ہے جس سے کسی کو اِنکار نہیں،اختلاف تو اس بات میں ہے کہ مقتدی کیلئے اِمام کے پیچھے بھی سورۃ الفاتحہ پڑھنا ضروری ہے یا نہیں ،اِس کے بارے میں حدیث کے اندر کوئی ذکر نہیں ،پس دوسری احادیثِ صحیحہ صریحہ کی روشنی میں یہی کہا جائے گا کہ