(4)حضرت ابراہیم نخعیفرماتے ہیں : ”إِذَا كبَّرْتَ فِي فَاتِحَةِ الصَّلَاةِ فَارْفَعْ يَدَيْكَ، ثُمَّ لَا تَرْفَعْهُمَا فِيمَا بَقِيَ“جب تم نماز کے شروع میں تکبیر کہو تو اپنے ہاتھوں کو اُٹھاؤ پھر بقیہ پوری نماز میں ہاتھوں کو نہ اُٹھاؤ۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2445)
(18)ـــاٹھارہویں دلیل:حضرت اَسود اور عَلقمہ کا عمل:
حضرت اسود اور حضرت علقمہکے بارے میں آتا ہے:”كَانَا يَرْفَعَانِ أَيْدِيَهُمَا إِذَا افْتَتَحَا ثُمَّ لَا يَعُودَانِ“وہ دونوں نماز کے شروع میں ہاتھ اُٹھایا کرتے تھےپھر دوبارہ نہیں اُٹھاتے۔(مصنف ابن ابی شیبہ:2453)
(19)ـــانیسویں دلیل:حضرت علی و عبد اللہ بن مسعود کے شاگردوں کا عمل :
حضرت ابواسحاقفرماتے ہیں:”كَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ وَأَصْحَابُ عَلِيٍّ لَا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ إِلَّا فِي افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ،قَالَ وَكِيعٌ:،ثُمَّ لَا يَعُودُونَ“حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت علی کے شاگردصرف نماز کے شروع میں(تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے)ہاتھ اُٹھایا کرتے تھے۔حضرت وکیعفرماتے ہیں کہ پھر وہ دوبارہ نماز کے آخر تک دوبارہ ہاتھ نہیں اُٹھاتے تھے۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2446)
(20)ـــبیسویں دلیل:اِمام مالک کامسلَک:
اِمام مالکفرماتے ہیں:”لَا أَعْرِفُ رَفْعَ الْيَدَيْنِ فِي تَكْبِيرِ الصَّلَاةِ لَا شَيْءٍ مِنْ فِي خَفْضٍ وَلَا فِي رَفْعٍ“ کہ میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ (نماز کےاندر)کسی چیز
میں رفعِ یدین نہیں جانتا، نہ ہی جھکنے میں اور نہ اُٹھنے میں ۔
اِمام مالککے شاگردحضرت عبد الرحمان بن قاسم فرماتے ہیں :”كَانَ رَفْعُ الْيَدَيْنِ عِنْدَ مَالِكٍ ضَعِيفًا إلَّا فِي تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ“ تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رفعِ