کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ۔(اِعلاء السنن:7/82)
علّامہ شامیفرماتے ہیں :
بعض حضرات نے حضرت عبد اللہ بن عباسکی اِس حدیث کو جو ضعیف قرار دیا ہے وہ کسی بھی طرح دُرست نہیں،اِس لئے کہ جب اِس حدیث کے مطابق حضرات صحابہ کرام رِضوان اللہ علیہم أجمعین کا اِجماع منقول ہے، حضرت عمرکا فیصلہ اور صحابہ کرام کا بغیر کسی انکار و نکیر کے اس حدیث کو قبول کرنا منقول ہے تو حدیث کا ضعف کہاں باقی رہ سکتا ہے،اِس لئے بہر حال یہی کہا جائے گا کہ یہ حدیث ضعیف ہونے کے باوجود حضرات صحابہ کرام کے اِجماع کی وجہ سے قوی ہوگئی ہے ، لہٰذا اس سے استدلال کرنا بلاشبہ درست ہے۔(منحۃ الخالق علی البحر الرائق:2/72)
(2)عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فِيْ رَمَضَانَ فَصَلَّى النَّاسَ أَرْبَعَةً وَعِشْرِيْنَ رَكْعَةً وَأَوْتَرَ بِثَلَاثَةٍ۔
ترجمہ:حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ رمضان المُبارک کی ایک رات (اپنے حجرہ سے)نکلے اور لوگوں کو4 رکعت(فرض نماز)20 رکعت (تَراویح) اور 3 رکعت وِتر پڑھائی۔(أخرجہ حمزۃ السہمی الجرجانی فی تاریخہٖ:317)
(2)ـــدوسری دلیل: حضرات صحابہ کرامکا عَمل:
عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ،عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ:أَدْرَكْتُ النَّاسَ وَهُمْ يُصَلُّونَ ثَلَاثًا وَعِشْرِينَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ۔(مصنف ابن ابی شیبہ:7688)
ترجمہ: حضرت عطاء ابن ابی رباح(جوکہ ایک بہت مشہور اور بڑے تابعی ہیں اور
اُن کا شمار کِبار تابعین میں ہوتا ہے،وہ )فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو اِس حالت میں