دیکھ لیجئے کہ کس قدر شدیدمتن کا اختلاف و اضطراب پایا جاتا ہے ، نیز خود حضرت عبد اللہ بن عمرجوکہ اِس ”أصح مافی الباب“روایت کے راوی ہیں ،خود اُن کا عمل بھی رفعِ یدین کا نہیں تھا ، چنانچہ مشہور اور جلیل القدر تابعی حضرت مُجاہد جنہوں نے ایک طویل زمانہ حضرت عبد اللہ بن عمرکے ساتھ گزارا ہے،وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ ابن عمر کو صرف نماز کے شروع میں ہاتھ اُٹھاتے ہوئے دیکھا۔(مصنّف ابن ابی شیبۃ:2452)(طحاوی:1357)
جبکہ ترکِ رفعِ یدین کی روایات غیر مضطرب ہیں جن میں سند اور متن کا کوئی اختلاف اور اضطراب بھی نہیں پایا جاتا ، اور نہ ہی اُن کے راوی کا عمل اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف ہے پس ایسے میں اُنہیں کیوں اختیار نہ کیا جائے اور وہ کیوں قابلِ ترجیح نہ ہوں۔اور پھر اُس پر مزید یہ کہ وہ روایات قرآن کریم کے مُوافق اور تعاملِ صحابہ کے مطابق بھی ہیں ، چنانچہ قرآن کریم کی آیات:﴿قُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ﴾اور﴿الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُون﴾ سے اِسی کی تائید ہوتی ہے ، نیز خلفاء راشدین سمیت کئی صحابہ کرام اور تابعین کا عمل بھی اِسی کے مطابق رہا ہے اور اِسی وجہ سے اہلِ علم کے دو بڑے مرکز مدینہ منوّرہ اور کوفہ کے فقہاء کرام نے اِسی کو اختیار کیا تھا۔
٭…………………٭…………………٭