کریمﷺکے اِس فرمان کے بعدلوگوں کا سری اور جہری تمام نمازوں میں مطلقاً قراءت سے رُک جانے کا ذکر موجود ہے،اُس میں صرف جہری نمازوں کے ساتھ لوگوں کے رُکنے کو خاص نہیں کیا گیا، چنانچہ فرمایا:”فَانْتَهَى النَّاسُ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَهُ حِينَ قَالَ ذَلِكَ“پس لوگ آپﷺکے اِس فرمان بعد آپﷺکے ساتھ قراءت کرنے سے رُک گئے۔ (مسند امام احمد:22922)
اِمام طحاوینے حضرت ابوہریرہسے مَروی ایک روایت نقل کی ہے اُس میں بھی مطلقاً لوگوں کا قراءت کو ترک کردینے کا ذکر ہے، چنانچہ فرمایا:”فَاتَّعَظَ الْمُسْلِمُونَ بِذَلِكَ , فَلَمْ يَكُونُوا يَقْرَءُونَ“۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی:1291)
وضاحت:مذکورہ بالا حدیث اور اُس میں حضرت ابوہریرہکے ذکر کردہ کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قراءت خلف الاِمام ،یعنی اِمام کے پیچھے قراءت کرناایک منسوخ اور متروک عمل ہے جس کو جمہور صحابہ کرام نےنبی کریمﷺکے ناپسند کرنے اور اُسے اِمام کے ساتھ جھگڑے سے تعبیر کرنے کے بعد ترک کردیا تھا، لہٰذا اب اِمام کے پیچھے مقتدی کا فاتحہ پڑھنا جمہور صحابہ کرام کی مُخالفت اور شریعت کے ایک منسوخ حکم پر عمل کرنا ہے۔
مُحدِّثِکبیرعلّامہاَنورشاہکشمیری فرماتے ہیں کہ اِمام کے پیچھےسورۃ الفاتحہ پڑھنےکا حکم جو اِس سے پہلی روایت ”لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ القُرْآنِ“میں مذکور ہے، جیساکہ اِمام ترمذینے اِسی مذکورہ حدیث سے پہلےوہ حدیث ذکر کی ہے،وہ حکم اِس مذکورہ حدیث سےمنسوخ ہے۔(العَرف الشذی:1/311)