نوٹ:اِمام ترمذینےمذکورہ حدیث جس سےقراءت خلف الاِمام کا منسوخ ہونا ثابت ہوتا ہے، اسے نقل کرکےآخر میں قراءت خلف الاِمام کے قائلین کی جانب سے حضرت ابوہریرہکی یہ حدیث نقل کی ہے:”مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ القُرْآنِ، فَهِيَ خِدَاجٌ، هِيَ خِدَاجٌ، غَيْرُ تَمَامٍ“یعنی جو شخص نماز میں سورۃ الفاتحہ کی تلاوت نہ کرے تو وہ نماز ناقص اور ناتمام ہے۔کسی نے حضرت ابوہریرہسے دریافت کیا کہ میں کبھی اِمام کے پیچھے نماز پڑھتا ہوں تو کیا کروں؟تو حضرت ابوہریرہ نے فرمایا:”اِقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ“اسے اپنے دل میں پڑھ لو۔
اِس مذکورہ حدیث سے مقتدی کیلئے قراءت خلف الاِمام کا حکم ثابت نہیں ہوتا ،اِس لئے کہ اِمام کے پیچھے خاموش رہنے والا مقتدی بھی اِمام کے پڑھنے کی وجہ سے سورۃ الفاتحہ کو حکماً پڑھنے والا ہوتا ہے،گویا اِمام کا سورۃ الفاتحہ پڑھنا حقیقی جبکہ مقتدی کا حکمی طور پر ہوتا ہے،لہٰذا یہ نہیں کہاجاسکتا کہ سورۃ الفاتحہ کی قراءت نہ کرنے کی وجہ سے اُس کی نماز ناقص اور ناتمام ہوئی،کیونکہ اُس نے بھی اپنے اِمام کے پیچھے حکماً قراءت کی ہے، نیز دل میں پڑھنے کا مطلب صرف یہ نہیں کہ زبان بھی اُس کے پڑھنے میں شریک ہو ، اِس لئے کہ عُرف میں کسی چیز کو زبان سے پڑھے بغیر صرف سمجھ لینے کو بھی پڑھنے ہی سے تعبیر کیا جاتا ہے ، چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ”فلاں شخص نے کتاب پڑھی یا خط پڑھا “، اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اُس نے زبان سے بھی اُس کو پڑھتے ہوئے تلفظ کیا ہو ، بلکہ پڑھ کر سمجھ لینے کو بھی پڑھنا کہہ دیا جاتا ہے،بالکل اِسی طرح حدیثِ مذکور میں حضرت ابوہریرہنے جو یہ اِرشاد فرمایاہے:”اِقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ“یعنی تم اسےاپنے دل میں پڑھ لو ،اِس کا مطلب بھی اِمام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ کا تلفظ کے ساتھ پڑھنا مراد