کہ جب اِمام قراءت کرے تو تم بھی قراءت کرو ، لیکن اِس کے بالکل برعکس یہ کہا گیا ہے کہ:”وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا“یعنی جب اِمام قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔
نوٹ:واضح رہے کہ حضرتسلیمانالتیمیبخاری اورمسلم کےمشہور راوی ہیں اور بالاتفاق ثقہ اور مُتقن ہیں لہٰذا مذکورہ بالا حدیث میں ان کی ذکر کردہ یہ زیادتی بالکل مقبول ہے ، یہی وجہ ہےاِمام مُسلم نے اپنی صحیح میں یہ زیادتی ذکر کرکے اُسے صحیح قرار دیا ہے۔علاوہ ازین یہ زیادتی نقل کرنے میں حضرت سلیمان التیمیمتفرّد بھی نہیں کہ ان پر تفرّد کا اِلزام لگایا جاسکے،بلکہ اور بھی کئی راویوں نے دوسری روایات میں اِسی زیادتی کو نقل کیا ہے،چنانچہ حضرت ابوعُبیدہکی روایت کیلئے دیکھئے(مستخرج ابی عَوانہ:1698) حضرت عمر ابن عامراور حضرت سعید بن ابی عَروبہ کی روایت دیکھئے(دار قطنی:1249)
(2)”عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ الْإِمَامِ، فَقَالَ:لَا قِرَاءَةَ مَعَ الْإِمَامِ فِي شَيْءٍ“۔ (مسلم:577)
ترجمہ:حضرت عطاء بن یَسارسے مَروی ہے کہ اُنہوں نے حضرت زید بن ثابت سےاِمام کے ساتھ قراءت کرنے کے بارے میں دریافت کیا تو اُنہوں نے فرمایا:اِمام کے ساتھ کسی بھی قسم کی قراءت نہیں ۔
وضاحت:مذکورہ حدیث میں حضرت زید بن ثابتجیسے عظیم اور جلیل القدر صحابی جو صحابہ کرام کے درمیان تفقہ اور علم و فضل میں ایک نمایاں مقام کے حامل ہیں،اُن کا یہ واضح اور صریح فتویٰ موجود ہےکہ اِمام کے ساتھ نماز پڑھنے کی صورت میں مقتدی کیلئے کسی بھی قسم کی کوئی قراءت نہیں ،نہ وہ سورۃ الفاتحہ پڑھے گا اور نہ ہی