اِستخراج کیا ہے وہ کوئی دین و شریعت سے الگ اور اُس سے باہر کی چیز نہیں بلکہ عین ِ دین اور عینِ شریعت ہے ،اُس کو کسی اِمام کی ذاتی رائے اور اُس کی اِنفرادی سوچ ہر گز ہرگز نہیں کہہ سکتے،کیونکہ اُس کی پشت پر قرآن و سنّت کی واضح نصوص اورصحابہ و تابعین کا تعامل ہوتا ہے جس سے فقہی مسائل کا اِستخراج کیا جاتا ہے اور ہر ہر مسئلہ میں اُس مسلَک کے اختیار کرنے والے فقہاء کرام کے پاس کوئی ایک دو دلیل ہی نہیں بلکہ دلائل کا اَنبار ہوتا ہے ،پس ایسے میں یہ کیسے اور کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ وہ اِمام کی اپنی وضع کردہ رائے اور اُس کا اِختیار کردہ تفرّد و اِنفراد ہے۔لہٰذا ”نماز میں فعِ یدین نہ کرنا“،”اِمام کے پیچھے کسی بھی نماز میں قراءت نہ کرنا “،”سورۃ الفاتحہ کے اختتام پر آہستہ آواز میں آمین کہنا “ اور ”بیس رکعات تَراویح پڑھنا“ یہ بھی قرآن و حدیث کی واضح اور صَریح نصوص سے ثابت شدہ مسائل ہیں ،یہی وجہ ہے کہ اِن پر بکثرت صحابہ کرام ،تابعین و تبعِ تابعین کا عمل رہا ہے ،لہٰذا ان کو ”حنفی نماز“کا طریقہ کار کہہ کر سادہ لوح عَوام کو دھوکہ دینا حقیقت پر پردہ ڈالنے کے سوا کچھ نہیں ۔ زیرِ نظر رِسالہ اِسی مقصد کیلئے تَرتیب دیا گیا ہے کہ اِس حقیقت کو واضح اور واشگاف کیا جائے کہ مذکورہ بالا چاروں مسائل قرآن و سنّت کی واضح اور صَریح نصوص سے ثابت شدہ مسائل ہیں ،نبی کریمﷺ،صحابہ و تابعین اور اُمّت کے سلَفِ صالحین کے عمل کے عین مُطابق ہے۔
اگر اِس رِسالہ کو تعصّب کی عینک اُتار کر پڑھا جائےتو حق کے واضح اور عیاں ہونے میں اِن شاء اللہ کوئی رُکاوٹ باقی نہیں رہے گی ، باقی ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔
و الله يهدي الي سبيل الرشاد۔
٭٭٭