عمل سنجیدگی و مَتانت کے حامل کسی سمجھدار اور دانشمند شخص کے اندر ہوسکتا ہے۔
ہمارے زمانے میں کچھ ناعاقبت اندیش لوگ قراءت خلف الاِمام کو حق و باطل کا اختلاف بناکر اس میں فضول اور لاحاصل طویل بحثیں کرکے عَوام کو شکوک و شبہات میں مبتلاء کرتے ہیں جن سے اُن کا مقصد تشکیک اور تردّد کی فضاء کوقائم کرکےلوگوں کو دین سے قریب لانے کے بجائے اور بھی زیادہ دین سے دور کرنا ہے۔وہ لوگ سادہ لوح عَوام کو احادیثِ طیّبہ کی مَن مانی تشریح کے ذریعہ یہ باوَر کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اِمام کے پیچھے قراءت نہ کرنے اور سورۃ الفاتحہ نہ پڑھنے کی وجہ سے نماز ہی نہیں ہوتی ، اور جو اتنے عرصہ میں نمازیں پڑھی گئیں ہیں وہ سب ناقابلِ اعتبار ہیں ، حالآنکہ اُن کا یہ کہنا بذاتِ خود ناقابلِ اعتبار اور ناقابلِ تسلیم ہے،اِس لئے کہ قرآن و حدیث کی متعدّد صریح نصوص،بکثرت صحابہ و تابعین کا تعامل اور اکابرینِ امّت کا عمل اِس بات کا واضح ثبوت اور بیّن دلیل ہے کہ اِمام کے پیچھے جہری اور سرّی تمام نمازوں میں مطلقاً قراءت نہیں کی جائے گی ،بلکہ مقتدی نصِّ قرآنی پر عمل کرتے ہوئے خاموش رہ کر اِمام کی قراءت کو سنے گا،اور آواز نہ بھی آرہی ہو تب بھی خاموش رہ کر اِمام کی قراءت کی جانب متوجہ رہے گا جیساکہ قرآن کریم میں ”اِستِماع“ کے ساتھ ساتھ ”اِنصات“ یعنی سننے کے ساتھ ساتھ خاموش رہنے کا بھی حکم دیا ہے،جس سے قراءت کی دونوں طرح کی نوعیتوں کا حکم واضح ہوجاتا ہے ۔اور مقتدی کے اِسی خاموش رہ کر سننے کے عمل کو اُس کیلئے حکماً قراءت کرنا کہا جاتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺنے اِمام کی قراءت کو مقتدی کیلئے بھی قراءت قرار دیا ہے ،پس گویا اِمام کی ہی قراءت سے حکمی طور پر مقتدی کی قراءت ہوجاتی ہے۔ذیل میں اِسی حقیقت کو واضح کرنے کیلئے قرآن و