باب۱۰=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت(اشارات)از. الامام محمد قاسم نا نوتویؒ
{’’ اگرنیت اچھی ہواور لیاقت کما ینبغی خدا داد موجود ہو،یعنی معلم و متعلم بغرضِ تشحیذِ ذہن،یا ردِّعقائدِ باطلہ،یااِظہار و
ظہورِ بطلانِ مسائلِ مخالفہ عقائدِ اسلام،یہ(علوم عقلیہ کا۔ف)مشغلہ اختیار کریں۔اور پھر دونوں میں یہ لیاقت بھی
ہو(کہ)معلم(مخالف عقائد۔ف)کے اِظہارِ بطلان پر قادر ہو اور متعلم دلائلِ اِبطال کے سمجھنے کی لیاقت رکھتا ہو،
تو بے شک تحصیلِ علوم مذکورہ داخلِ مثوبات و حسنات ہو گی۔}
یعنی منطق و فلسفہ کا حاصل کرنا عملِ نیک اور کارِ ثواب ہوگا۔اور ایسی صورت میں:
{......اِشاعتِ علوم ربانی اور تائیدِ عقائدِاحکامِ حقانی منجملہ سبیل اﷲ؛بلکہ سبیل اﷲ میں بھی اول درجہ کا(قرار پائے
گا۔ف)اس لیے کہ قوام و قیامِ دین بے علومِ دین اور تائیدِ علومِ دین وردِّ عقائدِ مخاللفۂ عقائدِ دین متصور نہیں۔اگر
تمام عالم مسلمان ہو جائے،تو اعلائے کلمۃ اﷲ کی حاجت نہیں،پر علومِ دین کی حاجت جوں کی توں رہے۔‘‘
(قاسم العلوم حضرت مولانا محمد قاسم نا نوتوی-احوال و کمالات......ص۶۶۶تا ۶۷۳ از جناب نور الحسن راشد)