باب۵=معقولات کے داخلِ درس ہونے پر اعتراضات
(۱)سر سید(۲)علامہ شبلی
سر سید احمد خاں کو داخلِ درس کتابوں پر شدید اعتراض ہے ،جس کا ذکر ما قبل میں کیا جا چکا ہے۔علامہ شبلی کو د رس ِنظامی کی خوبیوں کا تو اعتراف ہے ۔؛لیکن چند باتوں پر اُ نہیں شدید اعتراض ہے:
(۱)’’منطق و فلسفہ کی کتابیں تمام علوم کی نسبت زیادہ ہیں۔‘‘(۲)’’علم کلام جو آج مو جود ہے،اِمام غزالی او ر امام رازی کی باز گشت ہے۔لیکن اِن دونوں
بزرگوں نے علم کلام میں جس فلسفہ کو مخاطب بنایا تھا،وہی ارسطو کا فلسفہ تھا۔اِس بنا پر پانچویں صدی سے آج تک فلسفہ کے جو مسائل قبول یا رد کی حیثیت سے
علمی دائرے میںپھیلے ہوئے ہیں،وہ صرف فلسفۂ ارسطو کے مسائل ہیں۔‘‘(مقالات شبلی جلد ہفتم ص۱،۵)۔
عرضِ احقر:
(۱)شبلی کا عتراض نمبر ا، دیو بند کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔اِس طرز کو خیراباد مرکز نے ترقی دی تھی،دیوبندنے علومِ نقلیہ اور فنون عقلیہ دونوںکو ساتھ ساتھ پڑھانے کا طریقہ اختیار کر کے مذکورہ طرز میں اعتدال پیدا کر دیا تھا۔حکیم الامت حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں:
’’بعض جگہ پہلے کل معقولات پڑھتے ہیں،اُس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ پھر منقولات کی نوبت ہی نہیں آتی،،یا یہ شخص بد دماغ ہو جا تا ہے،اور جو مقصود تھا،اُس سے رہ جا تا ہے.......اور بعض جگہ پہلے منقولات اور پھر معقولات پڑھتے ہیں۔اِس کی مضرت آج کل یہ ہے کہ فہم کی کمی سے بعض بعض
مشکل جگہ ان کی سمجھ ہی میں نہیں ؤتی۔لہذا تجربہ کار بزرگوں نے یہ ترتیب رکھی ہے کہ کہ دونوں کو دوش بدوش رکھتے ہیں۔‘‘(محاسن اسلام ص۱۳۲)
اعتراض نمبر ۲کا جواب یہ ہے کہ اِمام غزالی او ر امام رازی کے علم کلام کو چھوڑ کر مغربی اصولوں کو اختیار کرنے کے نتیجے میں جن شرعی حقائق اور عقلی اصولوں کا انکار خود علامہ شبلی کو کرنا پڑا؛اُس کے لیے ملاحظہ ہو’’ الکلام‘‘ ۔اور تحقیقی جواب مقالہ کی ابتدا میں دیا جا چکا ہے،وہاں ملا حظہ فرما لیا جائے۔
رہی یہ بات کہ’’ فلسفہ کے جو مسائل قبول یا رد کی حیثیت سے علمی دائرے میں پھیلے ہوئے ہیں،وہ صرف فلسفۂ ارسطو کے مسائل ہیں۔‘‘
یہ علامۂ موصوف کی جانب سے دیا گیا اتنا بڑا مغالطہ ہے کہ اِس سے زیادہ بھیانک مغالطہ کا تصور دشوار ہے،جن اہلِ علم کی نظر الامام محمد قاسم نا نوتوی ؒ کی تصنیفات خصوصاً تقریر دل پذیر،انتصار الاسلام اور تصفیۃ العقائد پر ہے،نیزحضرت تھانویؒ کی تصانیف خصوصاً ’’التقصیرفی التفسیر‘‘،’’بوادر النوادر‘‘،’’الانتباہات المفیدۃ‘‘،درایۃ العصمۃ الشطر الثالث اور ’’بیان القرآن ‘‘پر ہے،اور وہ درج ذیل چیزوں کا بھی شعور و اِدراک رکھتے ہیں:
(۱) موجودہ تہذیب و تمدن کے قواعد جو شریت کے ساتھ مزاحمت کرتے ہیں ،(۲)جدید تعلیم یافتوں کوعلوم جدیدہ کی راہ سے پیدا ہونے والے خلجانات(۳) سائنسی اصول اور مسائل جن کے شریعت کے ساتھ متعارض ہونے سے معتقدین سائنس کو بے چینی رہا کر تی ہے(۴) اورجدید فلسفہ جس نے اپنے دلائل ،مسائل اور ہدف کی تعیین اور مقاصد کی تکمیل میں سائنس کے ساتھ ہم آہنگی کر رکھی ہے۔