باب ۶=چند دیگرمفکرین
فکر دیوبند ،تحریک علی گڑھ اور تشکیل ندوہ کے تعارف سے ہم فارغ ہو چکے۔آئندہ سطور میں ہم اُن مفکرین کا ذکر کریں گے،جن کی فکر میں اِختلاط ہے۔ بعض مفکرین ایسے ہیں کہ اُن کا حق باطل سے ممتاز نہیں ہے،انہی میں سے ایک ماہنامہ ’’ الشریعۃ‘‘ کے مدیر ہیں۔
(۱)مفکرین جن کا حق باطل سے ممتاز نہیں
مدیر ’’ الشریعۃ‘‘
مو صوف جنوری ۲۰۰۷ء کے شمارہ میں لکھتے ہیں:
’’دینی مدارس کے سامنے چیلنج یہ ہے کہ عصری تقاضوں کے حوالہ سے مؤثر علماء کیسے تیار کیے جائیں؟...یہ عصری تقاضے کیا بلا ہیں؟‘‘ پیغمبر کتاب
کی جو تبیین کرتاہے،وہ بھی اس ہدایت کو معاشرہ کے’’ ’زندہ حقائق ‘‘سے مربوط کرنے کا ایک ذریعہ ہوتی ہے۔لہذا دین کسی مجرد ہدایت کا نام نہیں جس کا
’’ زمینی حقائق ‘‘سے کو ئی تعلق نہ ہو؛بلکہ ’زندہ مسلم معاشرہ‘ ہی دین کا ہدف اور نمائندہ ہوتا ہے۔.....یہاں ہمیں دینی مدارس چلانے والے علماء کرام کی
فطانت سے توقع ہے کہ وہ دو چیزوں میں فرق کریں گے۔ایک ہے تقدس، اور دوسرے ہے قدامت۔قرآن و سنت میں تقدس قدامت کی وجہ سے نہیں؛
بلکہ اس وجہ سے ہے کہ وہ ہمارے دین کا مآخذ ہیں اور اُن کی نصوص نا قابلِ تغیر ہیں۔اِن کے علاوہ جتنے علوم ہیں وہ محض اپنی قدامت کی وجہ سے مقدس
نہیں ہو سکتے؛بلکہ اُن کی اہمیت کی وجہ اُن کی ’’افادیت ‘‘ہی ہو سکتی ہے۔اور اِس افادیت میں زمان و مکان کے تغیر سے کمی و بیشی ہو سکتی ہے۔‘‘پھر اِس
کی مثال پیش کی ہے کہ’’دینی مدارس میں جو فلسفہ پڑھایا جا تا ہے،وہ یونانی فلسفہ ہے۔ایک وقت تھا کہ یو نانی فلسفہ مسلمانوں کے لیے چیلنج تھا۔آج یونانی
فلسفہ کے بجائے مغربی فلسفہ ہمارے لیے چیلنج ہے،توہم یو نانی فلسفہ کے بجائے مغربی(یورپی و امریکی) فلسفہ کیوں نہ پڑھیں پڑھائیں۔‘‘
اِس پر ہم کچھ بھی کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ،صرف اِتنا ؑعرض کرتے ہیں کہ یہ صاحب’’زمینی حقائق‘‘،’’زندہ حقائق‘‘،’’افادیت‘‘کے اصولوں کے دام میں گرفتار ہیں،اور اِن الفاظ کے طلسم میںاسی طرح مبتلا ہیں جس طرح طرح ’’عقلیت‘‘،اور ’’حقیقت پسندی‘‘،کے فکری التباس کے،موجودہ مفکرین اور افادیت کے حوالہ سے حق و صداقت کو ملیا میٹ کرنے والے اہلِ ہوا۔ ’’افادیت‘‘کی اصطلاح کن لوگوں کی چلائی ہوئی ہے،اِس پر گزشتہ بیان میں روشنی ڈالی جا چکی ہے۔کاش یہ لوگ ’’زمینی حقائق‘‘،’’زندہ حقائق‘‘کے الفاظ زبان پر لانے سے پہلے اِن کے مصداق اور مضمون سے بھی واقف ہوتے! یہ اصطلاحات اُن لوگوں کی ہیں،جو بنیادی طور پر اباحت پسندی کو عام کرنے والے،اورد ینی بغاوت کے ہیرو تھے۔دنیوی زندگی اور ’’زمینی حقائق‘‘ کے ساتھ چمٹے رہنے والے تصور حیات سے وابستہ تھے،’’زندہ حقائق‘‘یعنی موجودہ کائنات کے علاوہ کسی بھی دوسرے عالم کا انکار کرتے تھے،آسمانی احکام اور عالمِ بالا سے آنے والی ہدایات کے سرے سے قائل ہی نہ تھے۔کاش! اِنہیں معلوم ہوتا کہuniverseسے وابستہ زمینی حقائق پر اِنحصارکے وہ لوگ بھی ،اب انکاری ہیںجو پہلے mutiverseکے حقائق کونبی ﷺ کی خبر سے تسلیم نہیں کرتے تھے۔
(۲)منتسبینِ قاسم
(ڈاکٹر عبید اﷲ فہد فلاحی پروفیسر اسلامک اسٹڈیز علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کے اقتباسات اور
جناب محمد غطریف شہباز ندوی مدیر افکار ملی کے سوالات کی روشنی میں )
(۱)ڈاکٹر عبید اﷲ فہدنے اپنے مضمون جس کا گزشتہ تحریر میں ذکر آ چکا ہے،لکھا ہے کہ: