کہ اِن حضرات کے نزدیک با نی ادارہ کی یہ کوشش جس کا ذکر مقالہ نگار نے کیا ہے،کتنی سنجیدہ تھی اور مذکورہ حضرات نے اس کوشش کا کیا نوٹس لیا؟اس کا ذکر ہم ابھی آگے کریں گے ،جس کے بعد یہ اندازہ ہو جائے گا کہ ا سلامک اسٹڈیز کے اسکالر موصوف کا یہ افسوس واقعی افسوس ہے،یا تاریخی حقائق کا بالقصد اِخفا کرنا اور نا واقف ناظرین کی ہمدردی حاصل کرکے، اُنہیں علماء سے بے جا طور پر بدگمان کرنا پیش نظر ہے۔ آئندہ اقتباسات میں موصوف نے ایک اور الزام علماء پر رکھا ہے، فرماتے ہیں:
(۵)شعورقاسم کے تعارف میں خیانت
’’افسوس ہے کہ اس طرح کی کوششین اربابِ مدارس کی طرف سے بہت کم کی گئی ہیں۔عصری علوم کے ماہرین سے اِستفادہ،اسلام کی
متوازن ترجمانی کے لیے عصری جامعات کے فضلاء اور دانشوروں کی مدارس میں آمد ورفت خال خال دیکھنے کو ملتی ہے۔‘’’‘عصری
اداروں سے اشتراک کے ساتھ ہی مذہب کی موثر ترجمانی ہو سکتی ہے۔‘‘
موصوف کہنا یہ چاہتے ہیں کہ معتقدین فطرت(اہلِ نیچر)کو ارباب مدارس اپنے یہاں بلا کراُن کے کچھ فاسد عناصر اساتذہو طلبہ کی طبیعتوں میں داخل کرنے کی کاوش کرتے ۔یہ اُن کی محض خام خیالی ہے،وہ چا ہتے یہ ہیں کہ دین کی حفاظت خالص صورت میں نہ ہونے پائے۔وہ بھی نیچریت آمیز بن کر رہ جا ئے۔ چناں چہ عصری علوم کے ماہرین کی خصوصیات خود ہی ذکر کرتے ہیں :
’’دانشور اور فضلاء معاصر حالات کا اِدراک زیادہ رکھتے ہیں۔ ‘‘ ’’مسلمانوں کے مختلف مکاتبِ فکر سے اُن کا براہِ راست تعامل ہو تا ہے،
اس لیے اُن کی سوچ،طریقۂ کار،منصوبہ بندی اور ذہنیت شیعہ و سنی تمام مسلمانوں کے لیے زیادہ قابلِ قبول ہو سکتی ہے۔‘‘
پروفیسر مذکور کے پیش کردہ امور خمسہ پراستدراک
اب ہم اِس معما کو بھی حل کیے دیتے ہیں کہ سر سید نے جید علمائے دین سے جو رہنمائی چاہی تھی،اُس کا پس منظرکیا تھا اور پیش منظر کیا سامنے آیا۔ہوا یہ کہ سرسید نے مسلمانوں کے مختلف مکاتبِ فکر کا علی گڑھ میں اِجتماع چا ہا تھا؛بعد میں مولانا عبد اﷲ انصاری کو وہ علی گڑھ بلانے میں کامیاب ہو ئے،اور کہا جا تا ہے کہ موصوف عبد اﷲ انصاری نہایت نیک نامی کے ساتھ علی گڑھ میں رہے۔ظاہر ہے شرافت اور اخلاق کے ساتھ ہی وہ علی گڑھ میں رہے ہوں گے؛مگردینی نقطۂ نظر سے صورت حال جو کچھ پیش آئی ،اُسے سر سید کے حوالہ سے، جناب حفیظ مینائی کی زبانی سنئے۔وہ لکھتے ہیں:
ناظمِ دینیات کے فرائض مقرر کردہ سرسید احمد خاں
’’ سر سید نے کالج کے شعبۂ دینیات میں جب مولوی عبد اﷲ صاحب کا تقرر کرنا چا ہا،تو منشی حافظ سعید احمد صاحب کو ایک مفصل خط لکھا جس میں
ناظمِ دینیات کے فرائض بیان کیے ہیں۔اُسی سلسلے میں لکھتے ہیں :’’مدرسہ(مدرسۃ العلوم یعنی اینگلو اورینٹل کالج)میں شیعہ اور سنی دونوں قسم کے
طالبِ علم ہیں،اُن کو صرف سنی طالب علموں کی ہدایت سے تعلق رکھنا چاہیے،اور اِس بات کا ہمیشہ خیال رہے کہ کوئی ایسا امر واقع نہ ہو نے پائے
جس سے ما بین سنی اور شیعہ طالب علموں کے کوئی رنجش ،یا تکرار مذہبی پیدا ہو۔‘‘
اِس کے بعد جناب حفیظ مینائی صا حب کہتے ہیں کہ
سرسید کی رواداری کا اصل منشا
’’سر سید کی یہ رواداری در اصل اِسی خیال پر مبنی تھی کہ مذہبی بحثوں سے امت میں اِفتراق بڑھتا جا ئے گا....البتہ تقلید کے مسئلہ میں اُنہوں
نے خاموش رہنا مناسب نہ سمجھا۔اِس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کے نزدیک مسلمانوں کا زوال و جمود بہت کچھ تقلید ہی کے سبب سے تھا۔تقلید کو اُنہوں نے
اپنی سنجیدہ تحریروں کاموضوع بھی بنایا اور طنز وظرافت کے تیروں کا نشانہ بھی۔‘‘ (علی گڑھ میگزین نمبر ۱۹۵۳-۱۹۵۵ء ص۲۵۸۔از حفیظ مینائی ص۱۰۹)
کیا سمجھے آپ!یعنی ہیومنائیزیشن کے اصولوں پر،جو چا ہے،وہ رہ سکتا ہے۔ علی گڑھ میں ناظم ِ دینیات کا عہدہ ۱۸۹۳ء میںقائم ہواجس کے اولین ناظم