معقول زیادہ پڑھتے ہیں قرائن سے معلوم ہوتاتھاکہ معقولی ہیںکہنے لگے کہ قرآن شریف میں وعدہ ہے ’’وَلَقَدْ کَتَبْناَ فِیْ الزَّبُوْرِمِنْ بَعْدِ الذِّکْرِاَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُہاَ عِباَدِیَ الصَّالِحُوْنَ‘‘مگرباوجوداس کے پھرانڈریانوپل پرکفارکا قبضہ ہوگیاتو اس کی کیا وجہ؟ میں نے کہا مولانا یہ بتلائیے کہ موجہات میں سے یہ کونسا قضیہ ہے بس میرے اس کہنے پرہی خاموش ہوکر بیٹھ گئے پھرمیںنے ہی خودان سے کہاکہ آپ کو جویہ شبہ ہواہے کہ یہ قضیہ ضروریہ یادائمہ ہے تو اس کی کیا دلیل ہے؟ممکن ہے کہ مطلقہ عامہ ہو جس کا ایک باربھی وقوع کافی ہوتاہے جو ہوچکااوراللہ تعالیٰ کا وعدہ پوراہوگیا۔ اس کے بعد پھرکوئی شخص نہیں کھڑاہوا،تودیکھئے چوںکہ یہ طالب علم علوم درسیہ پڑھے ہوئے تھے اور مبادی ان کے ذہن میں تھے ،اس لیے میرے ایک لفظ سے ان کا شبہ حل ہوگیا۔(ملفوظات حکیم الامت جلد ۱۰ص ۳۱۶تا۳۲۱) ’’اس فلسفہ کے پڑھنے سے دقتِ فکر اور عمقِ نظر پیدا ہو جا تا ہے۔ان کو بات کا سمجھنا سمجھا نا سہل ہو تا ہے۔‘‘(ملفوظات حکیم الامت ج۲۶ص۲۴۳)
درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۳)
’’حدیث ما کان یَزِیدُ علی اِحدی عَشر رَکَعَۃِِ (یعنی آپﷺ ہمیشہ گیارہ رکعت پر زیادہ نہ کرتے تھے)،بظاہر باقی روایات کے خلاف اور متعارض ہے جن میں کم و بیش رکعاتِ صلوٰ ۃ لیل کا ذکر ہے۔اِس کی نہایت لطیف تطبیق ارشاد فرمائی کہ اِس حدیث میں عدم اِ ستمرارِ زیادت(ہمیشہ زیادہ نہ ہونا)یعنی سلبِ دوام کلی ہے،نہ دوام السلب الکلی(دوام کلی کی نفی نہ کہ سلبِ کلی کا دوام۔ف)،اب کو ئی تعارض نہیں۔‘‘(ملفوظات حکیم الامت ج۱۵خیر الافادات :ص۲۵۳)
منطق کے بغیر آدمی درسیات پڑھا نہیں سکتا (حضرۃالاستاذعارف با ا ﷲ مولانا صدیق احمد صاحب رحمہ ا ﷲ )
اِس موقع پر عارف با ﷲ حضرت مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی رحمہ ا ﷲ کی ایک بات بے ساختہ یاد آتی ہے۔۱۴۰۳ھ کی بات ہے،مدرسہ جامعہ عربیہ ہتورا میں حضرت رحمہ ا ﷲ نے قطبی پڑھاتے وقت فرمایا تھا کہ:
’’ منطق کے بغیر آدمی درسیات پڑھا نہیں سکتا اور اگر پڑھائے گا،تو حق ادا نہیں کرے گا۔‘‘
اور یہ بات میرے سوال پر فرمائی تھی۔میں نے عرض کیا تھا کہ حضرت!اِن فنون کے داخلِ درس ہو نے سے کیا نفع ہے ؟کہ حدیث ،تفسیر،فقہ ،اصول فقہ، اصول تفسیر وغیرہ علوم مقصودہ سے وقت بچا کر اِن میں کھپایا جاتا ہے ؛جب کہ بیرون مدرسہ ما حول و معاشرے میں کبھی اِن کا کام نہیں پڑتا۔’’جزء الجزء جزء لہ‘‘اور’’لازم اللازم لازم لہ‘‘کا محاورہ اور اصول ، کوئی بھی نہیں سمجھتا ۔’’سلبِ دوام کلی اور دوام السلب الکلی‘‘ کا فرق و تمیز لوگوں کے ذہنوں کو اپیل نہیں کرتی۔ اِفہام و تفہیم کے لیے بازار علوم جدیدہ میں یہ سکہ بالکل کھوٹا معلوم ہو تا ہے۔میرے اِس سوال پر حضرت نے نگاہ اوپر اٹھائی جو اِس سے پہلے کتاب ’’قطبی‘‘پر مرتکز تھی،میری طرف دیکھا ، مذکورہ جواب ارشاد فرمایا اور اپنے خاص انداز میں تبسم فرمایا ۔آج یہ واقعہ لکھتے ہوئے دل بھر آیا؛ اُس وقت کا منظر نظروں میں اِس طرح پھر گیا کہ جیسے کل کی با ت ہو۔حضرت کے مذکورہ جواب کے بعد پھر کبھی وسوسہ پیدا نہیں ہوا۔
آپ بیتی: از مولف -فخر الاسلام
حضرت مولا نا رحمہ اﷲسے میں نے شرح جامی اور بعض دوسری کتا بوں کے علاوہ شرح تہذیب اور قطبی کی بحث تصدیقات پڑھی تھی ۔اُس کے بعد مدرسہ ریاض العلوم میں داخلہ لینے کی نوبت آئی،وہاں سلم العلوم پڑھی۔ملا حسن وہاں درس میں شامل نہیں تھی؛اس لیے(گو ذاتی طور پر ازخود مطالعہ کیا؛لیکن )یہ حسرت ہمیشہ رہی اور اب تک ہے کہ اگر ہتورا میں ہی موقوف علیہ تک پڑھ لیا ہوتا ،تو ملا حسن اور فنون عقلیہ کی دوسری کتا بیں ضرور پڑھنے کو ملتیں جو وہاں داخلِ درس تھیں۔درسیات میں فنون کی اہمیت کو سمجھنے والا میں نے حضرت سے زیادہ کسی اور کو نہیں پایا۔
پھر بعد میں؛ایک مدت کے بعد حکیم الامت حضرت تھانوی علیہ الرحمۃ کے یہ ملفوظات نظر سے گزرے: