لیکن چوں کہ اپنی جراتِ رندانہ اور شمشیر بے نیام مزاج کی وجہ سے سر سید احمدخاں بدنام ہوچکے تھے۔عامۂ مسلمین کو اصلاحِ مذہب کا عنوان بڑا موحش معلوم ہواتھا،سر سید احمد خاںکی ریفارمیشن کی ۳۰ سالہ تحریک کے ساتھ علمائے حق کا جو سلوک تھا ،وہ بھی سامنے تھا،اوران کے بعض رفقاء جو ان کی مغرب زدہ فکر اور صحیفۂ فطرت کے باب میں اُن کے خیالات سے متاثر تھے؛لیکن روش اور طریقہ کار کو ناپسند کرتے تھے ،ایسے لوگوں نے سر سیدکے اختیار کردہ عنوان سے خود کو بچا کر اپنے منشور میں یہ دو عنوانات رکھے :(۱)اصلاح العلماء(جس سے اُن کا مقصودمصالحت بین المسالک تھا)(۲)اصلاحِ نصاب۔اِس فکر کا نام انہوں نے ندوہ رکھا۔اور ہم بتا چکے ہیں کہ مذکورہ اصول پر مابعد ادوار میں اُٹھنے والی تحریکیں ندوہ کی ہی شاخیں ہیں۔
تحریکوں کا یہ اصل تعارف ذکر کیا گیا۔لیکن جس طرح گزشتہ صدی میں فکری اِلتباسات پیدا کیے ہیں،اسی طرح دورِ حاضر میں بھی مسلسل یہ کو شش کی جا رہی ہے کہ حق واضح نہ رہے؛بلکہ خلط و لبس کا شکار ہو جا ئے ،اور اہلِ حق کے آحاد و افراد کو اہلِ باطل کے ساتھ ملا جلا کرپیش کیا جا ئے۔
التباساتِ فہد
اِس کا ایک نمونہ ڈاکٹر عبید اﷲ فہد فلاحی کا ایک مضمون ہے جو تہذیب الاخلاق اپریل ۲۰۱۶’’بدلتے حالات میں مدارسِ دینیہ کی ترجیحات‘‘کے عنوان سے شائع ہوا ہے ۔موصوف نے اپنے رجحانات،یا ترجیحات ظاہر کرنے میں دیوبند کا نام لے کر تلبیس سے کام لیا ہے۔دیوبند کے اِستثناء کے ساتھ انہیں اپنی تجویزات اور ترجیحات پیش کرنا چا ہیے تھی؛لیکن ایسا نہ کر کے:
(۱)مصلحین امت کی تعیین میں خلط
ایک تو یہ تلبیس کی کہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ساتھ جناب ابوالاعلی مودودی ا ور مریم جمیلہ کو بیسویں صدی کے علمائے دین اور مصلحینِ امت میں شامل فرمایا،اور اگلی تلبیس کا نمونہ اُن کا یہ اِقتباس ہے :
(۲)فاسد اصولوں کے انتساب میں تلبیس
’’مگر اب حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔بیسویں صدی میں جن مفاہیم،تصورات،نظریات و افکار کے حق میں قرآن و سنت سے دلائل فراہم
کیے گئے تھے،اُن کی جگہ نئے افکار و تصورات نے لے لی ہے۔‘‘(تہذیب الاخلاق اپریل ۲۰۱۶’’بدلتے حالات میں مدارسِ دینیہ کی ترجیحات‘‘از ڈاکٹر عبید اﷲ فہد فلاحی ص۳۹)
یہاں تلبیس یہ ہو ئی کہ موصوف نے یہ ظاہر نہیں فر ما یا کہ وہ افکار کیا ہیں جن کے حق میں قرآن و سنت سے دلائل فراہم کیے گئے تھے۔ وہ ’’فرسودہ افکار‘‘اگرمودودی صاحب اور اُن کے پیش رووں کے ہیں اور انہوںنے اگر ایسا کیا ہے اور یقیناً کیا ہے ،جس کے نمونے بھی مفتی عبد القدوس رومی رحمہ اﷲ متعدد موقعوںپراپنے مضامین میں دکھلا چکے ہیں تو اُ ن کی اِس اِفساد نما اِصلاح اور اُن کے اِس طرزِ عمل سے بے زاری و نفرت کا اِظہار ہو نا چا ہیے،نہ اُن کو نباہنے کی ضرورت ہے،اور نہ ہی اُن کے ساتھ حضرت تھانویؒ کا نام شامل کر نے کی ۔اور اگر وہ اہل حق کے افکار تھے جو اب پرانے ہو گئے ،اور دلائل کی روشنی میں اُن کا باطل ہو نا واضح ہو گیا، ،تو اُن کے نمونے پیش کرنے چا ہئیں۔اور جو افکار اور مسائل موصوف نے پیش کیے ہیں،اُن میں بھی تلبیس سے کام لیا ہے۔پروفیسر عبید اﷲ فہدلکھتے ہیں کہ:
(۳)اعتقادی اجزاء میں خلط و تلبیس
’’جدید تعلیم نے مسلمانوں کو عرفانِ نفس کی صلاحیت بخشی،اور یہ صلا حیت عرفانِ الٰہی کا ایسا ذریعہ بنی کہ تمام دینی جماعتوں، اسلامی
تحریکات اور اصلاحی و اِحیائی تنظیموںکو بیش تر افراد جدید تعلیم گاہوں سے ملنے لگے۔‘‘
حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ یہ تحریکات اور تنظیمیں اُن کی جدید تعلیم یافتوں کی خوشامد کرنے لگیں اور صحیح اصولوں کے ترک کی مرتکب ہوئیں۔موصوف لکھتے ہیں :