باب ۱۴=درسی کتابوں کا طریقۂ تدریس از۔ حکیم الامت مولا نا اشرف علی تھانوی ؒ
درسیات کے متعلق طلبہ اور اساتذہ دونوں کے لیے حکیم الامت حضرت مولا نا اشرف علی تھانوی ؒ کی اِصلاحات بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔وہ فر ماتے ہیں:
حلِّ مطالب پر اِکتفا کرنا چا ہیے،غیر ضروری تقریر مناسب نہیں
’’آج کل جو مدارس میں مدرسین اور طالبین کی طرف سے کو تاہیاں ہو تی ہیں،اُس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے تو ایک مولوی صاحب کی بات بہت پسند آئی.....جب سلم پڑھانے بیٹھے ،تو اپنے شاگردوں سے کہا کہ تحقیق سے پڑھاؤ ںیانفس کتاب پر اِکتفا کروں۔شاگردوں نے کہا صاحب تحقیق سے پڑھائیے۔چوں کہ سلم کی بہت سی شروح موجود ہیں،انہوں نے دیکھ بھال کر خوب ہانکی۔طالب علم بہت خوش ہوئے۔دوسرے روز کہا کہ اب بھی تحقیق سے پڑھاؤں یا سر سری؟ طالب علموں نے کہا کہ صاحب تحقیق سے ہی پڑھائیے۔مولوی صاحب نے کہا کہ ذرا کل کی تحقیق سنا دو،کیا یاد کی ہے؟اب سب اُلو سے بیٹھے دیکھ رہے ہیں،کسی کو کچھ بھی یاد نہیں نکلا۔مولو ی صا حب نے فرمایا؛جب یاد نہیں کرتے تو میرا مغز کھانے سے کیا فائدہ ہوا؟بولو اب کیسے پڑھاؤں ؟سب نے کہا نفس مطلب ہی کافی ہے۔ پھر مولویصاحب نے کہا کہ بھائی! ہم نے اتادوں سے یوں کتابیں سمجھ کر پڑھی تھیں۔یہ تقریریں جو تمہارے سامنے کی تھیں،یہ خود کتابیں دیکھ کر سمجھ میں آگئیں۔تم بھی ایسے ہی کتابیں پوری کر لو۔انشاء اﷲ سب کچھ ہو جاؤ گے۔حضرت نے فرمایا واقعی اُنہوں نے بہت ہی خیر خواہی کی جو استاذوں کو کرنی چاہیے۔‘‘
استاذ کے لیے بات کی پَچ مناسب نہیں
’’آج کل تواپنا رنگ جمانے کو اور تقریر صاف کرنے کو یوں ہی اللٹپ ہاکتے رہتے ہیں،چاہے کوئی سمجھے یا نہ سمجھے۔یہاں تک کہ اگر طالب علم کوئی صحیح بھی سمجھ جا تا ہے او اپنی زبان سے اُس کے خلاف نکل گیا تو پچ بھرنے کے لیے اُسی کے خلاف ہانکے جاتے ہیں۔
مولانا یعقوب صاحب رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت
’’یہ بات تو میں نے مولانا یعقوب صاحب رحمۃ ا ﷲ علیہ میں دیکھی اور آج تک کسی میں نہ دیکھی کہ جب کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی،فوراً اپنے ماتحت مدرسوں کے پاس چلے گئے،اور مجمع میں جا کر کہہ دیا کہ مولانا میں اِ س کا مطلب نہیں سمجھا ہوں،مجھے سمجھا دیجئے۔ اور جب وہاں سے آئے،صاف طالب علموں سے کہہ دیا کہ مولوی صاحب نے اِس کا یہ مطلب بیان کیا ہے۔اور پھر پڑھانے لگے،یہاں تک کہ اگر کوئی طالب علم بھی صحیح مطلب بیان کر دیتا تھا،تو فوراً مان لیتے تھے اور فرماتے کہ بھائی تم ٹھیک کہتے ہو،میں غلط سمجھا تھا اور کئی کئی بار فرماتے۔یہ ایک حالت حاوی ہو گئی اور فرما یا کہ اِس شخص کا دل اﷲ تعالی نے بے روگ بنایا تھا۔.....‘‘
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت
’’جب میں کانپو میں پڑھاتا تھا اور طالب کو کتاب پر شبہے ہو تے اور مجھ سے الجھتے تو میں تو صاف کہہ دیا کرتا تھا کہ کہ میں ناقل ہوں اور ناقل بھی ایسا کہ تصحیحِ کتاب ذمہ دار نہین۔یہ بتلاؤ جو کتاب میں لکھا ہے،اُس کا وہ مطلب ہے یا نہیں جو میں نے بیان کیا ہے۔طالب علم کہتے کہ صاحب جو کتاب میں لکھا ہے،اُ س کا مطلب تو وہی ہے جو آپ نے بیان کیا ہے۔.....میرا یہ بھی معمول تھا کہ جس بات میں شرحِ صدر نہ ہو فوراً کہہ دیا کہ یہاں پر میری سمجھ میں نہیں آیا۔،تم بھی