باب ۱۵=معقولات و فلسفہ کا اِطلاقی پہلو
’’مبادی بدون تحصیل درسیات کے سمجھ میں نہیںآسکتے، تو قرآن وحدیث کے بہت سے دقائق بلا علوم درسیہ کے سمجھ میں نہیںآسکتے۔تفصیل اس کی یہ ہے کہ قرآن وحدیث کے دوحصے ہیں،ایک حصہ تو نفس احکام اوراس کے متعلق تذکروتذکیر کا ہے، وہ تو آسان ہے اورنصوص کے اندرجابجاقرآن کو آسان فرمایاگیاہے۔’’ چناںچہ ایک مقام پر ارشاد ہے ’’وَلَقَدْ یَسَّرْناَ الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِفَہَلْ مِنْ مُّدَّکِر‘‘ دوسری جگہ فرماتے ہیں’’ وَاِنَّمَا یَسَّرْناَہُ بِلِساَنِکَ لِتُبَشِّرَبِہِ الْمُتَّقِیْنَ وَتُنْذِرَبِہِ قَوْماً لُّداًّ‘‘باقی رہا دوسراحصہ جو استدلالات اوراستنباطات کا ہے، وہ دقیق ہے۔ اب رہایہ شبہ کہ جب قرآن وحدیث کا سمجھنا بلاعلوم درسیہ کے دشوارہے تو صحابہؓ نے قرآن وحدیث کو کیوںکرسمجھا،کیوںکہ یہ علوم درسیہ اس زمانہ میں تو مدون نہ تھے ،نہ ان کی تحصیل معتادتھی (یعنی نہ انہیں حاصل کرنے کی عادت تھی۔ف)تو جواب اس کا یہ ہے کہ صحابہؓ کی طبائع سلیم تھیں اس لیے ان کو قرآن وحدیث کے اندر شبہات ہی پیدانہ ہوتے اورمقاصد کے سمجھنے کے لئے ان کو مبای کی تحصیل کی ضرورت ہی نہ ہوتی تھی ،اس لئے کہ قرآن وحدیث کو بلاعلوم درسیہ بخوبی سمجھ لیتے تھے ۔ بخلاف آج کل کے۔ ....‘‘
درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۱)
’’ میں بطورمثال کے ایک شبہ بیان کرتاہوںجوعلوم درسیہ سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے خودقرآن کی ایک آیت کے متعلق ہوتاہے وہ یہ ہے کہ نویں پارہ میں ارشاد ہوتاہے {َلَوْ عَلِمَ اللّٰہُ فِیْہِمْ خَیْراً لَاَسْمَعَہُمْ وَلَوْ اَسْمَعُہُمْ لَتَوَلَّوْا وَہُمْ مُعْرِضُوْن} (سورۂ انفال پارہ ۹،ع۱۷،آیت۲۳)اسی آیت میں کفارکی مذمت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ علم خیر کے لیے اسماع لازم ہے اوراسماع کے لیے تَوَلِّی لازم ہے اورقاعدہ عقلیہ ہے کہ لازم کا لازم لازم ہواکرتاہے تو علم خیر کے لیے تَوَلِّی لازم ہوئی، جس کا مطلب اس قاعدہ مذکورہ کی بناء پر یہ ہواکہ اگر حق تعالیٰ کو ان کفار کے متعلق خیر اوربھلائی کا علم ہوتاتو ان کفارسے تولی اور اعراض کا صدورہوتااوراس کا استحالہ(محال ہونا) ظاہر ہے ۔اب اس شبہ کا رفع کرنا اس شخص کے لیے جو علوم درسیہ سے واقف نہ ہو ،بہت دشوار ہے اورجوعلوم درسیہ پڑھ چکا ہواس کے لیے ایک اشارہ کافی ہے۔وہ یہ کہ یہ شبہ تو جب صحیح ہوتا کہ یہاں اسماع حداوسط ہوتاحالاںکہ اسماع حد اوسط نہیں اس لیے کہ وہ مکرر نہیں کیوں کہ پہلا اسماع اورہے دوسرا اسماع اورہے۔ لہٰذاتولی کو جولازم کا لازم سمجھاگیااوراس بناء پر علم خیر کے لیے تولی کولازم قراردیاگیا ،خودیہی غلط ہوا (یعنی یہاں لازم الازم لازم لہ قاعدہ کا اِطلاق درست نہیں۔ف)۔ پس حق تعالیٰ کے علم کے متعلق واقعہ کے غیر مطابق ہونے کا شبہ ہواتھا وہ رفع ہوگیا ۔اب آیت کا صحیح مطلب یہ ہواکہ اگرحق تعالیٰ ان کے اندرکوئی خیردیکھتے تو ان کو باسماع قبول سناتے مگر جب کہ حق تعالیٰ کے علم میں ان کے اندر کوئی خیرنہیں ہے، ایسی حالت میں اگران کو نصیحت سنادیں جو اسماع قبول نہ ہوگا،کیوںکہ یہ اسماع حالت عدم خیر میں ہوگا۔تو وہ لوگ اس کو ہرگز قبول نہ کریںگے،بلکہ تولی اوراعراض کریں گے۔‘‘
درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۲)
’’اسی طرح قرآن کی آیت پرایک دوسراشبہ اوراس کا جواب یادآیا۔ اس کا واقعہ یہ ہے کہ جنگ بلقان کے زمانہ میں جب ایڈریانوپل پرکفار کا قبضہ ہوا تو ہندوستان کے مسلمانوںکوبہت پریشانی ہوئی اورطرح طرح کے خیالات فاسدہ آنے لگے حتی کہ بعض کو تونصوص پرکچھ شبہات بھی پیداہوگئے تھے، یہ حالت دیکھ کردہلی کے مسلمانوںنے ایک بڑاجلسہ کیا اورمجھ کو اس جلسہ کے اندرمدعو کیا اورصدربنایا اورلوگوںکے عقائد کی اصلاح کی نیت سے مجھ سے وعظ کی درخواست کی چنانچہ میری اس جلسہ میں تقریرہوئی جب وعظ ہوچکاتو بآواز بلند میں نے کہاکہ اگرکسی کوکوئی شبہ ہویاکسی کو کچھ دریافت کرناہو تو دریافت کرلے تاکہ بعد میں کوئی شخص یہ نہ کہے کہ مجھ کو یہ پوچھناتھااورنہ پوچھ سکا۔یہ سن کر ایک ولایتی منتہی طالب علم کھڑے ہوئے یہ لوگ