کہتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کے پاس سے ہے حالانکہ وہ خدا تعالیٰ کے پاس سے نہیں اور اللہ تعالیٰ پرجھوٹ بولتے ہیں ۔اور وہ جانتے ہیں۔
ممکن ہے کہ تفسیر غلط بیان کرتے ہوں ۔ اور غلط تفسیر میں۔۔۔۔۔ یہ دعوی ہو تا ہے کہ تفسیر قواعد شرعیہ سے ثابت ہے۔۔۔۔ اس صورت میں معنیً
جز وکتاب ہو نے کا دعوی ہو گا بایں معنی کہ جز وماثبت بالشرع ہے اورہرثابت بالشرع حقیقۃً ثابت بالکتاب ہے کیونکہ دوسرے دلائل شرعیہ
مظہر احکام ہوتے ہیں نہ کہ مثبتِ احکام۔۔۔۔۔ ملحدوں نے اس امت میں بھی حدیث میں تحریف لفظی بھی اور قرآن میں صرف تحریف معنوی
کی ہے کیونکہ الفاظ قرآنیہ نصاً محفوظ ہیں(بیان القرآن جلد ۱ ص ۲۴۵۔ مطبع ملتان) اوراصل جڑ خرابی کی حب دنیاوتملق اہل دنیاہے۔
میں سچ کہتاہوں کہ جن اہل دنیاکے تملق میں جن مبانی (اعتراض کی بناؤں۔ف) کو تسلیم کرکے اصول اسلامیہ کو بدلاجاتاہے اگر وہ اہل دنیا
ان اصول کوتسلیم کرـلیں تویہ محبین فوراً اپنی سابق رائے کو چھوڑکر ان مبانی (اعتراض کے منشا اور بنیاد۔ف)کو غلط بتلانے لگیں گے۔ غرض
قبلۂ توجہ ایسے لوگوںکا رضاہے اہل دنیا کی۔ جس میںرضاہو ادھرہی پھرجاویں گے۔‘‘(الانتباہات المفیدۃ انتباہ سیزدہم)
منتشرہو نے کے بعد،نظرپھر مرتکز ہوئی،اورامامین (حجۃ الاسلام محمد قاسم نانوتویؒ اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ)کی تصنیفات کی برکت سے سمجھ میں یہ آیا کہ جن حضرات سے دین کو نفع ہوا،وہ معقول ہی کی بدولت اس لیے ہوا کہ علم کی حقیقت اُنہیں حاصل ہوئی:
’’علم یہ ہے کہ اِدراک سلیم اور قوی ہو۔‘‘(ملفوظات حکیم الامت ج۱۵ مزید المجیدص۴۵۱) ۔
درسیات کی دولت کی اُنہیں قدر تھی:
’’ہمیں یعنی عربی کے طالب علموں کو اپنی ہی دولت کی خبر نہیں۔‘‘
اُن میں قابلیت دیوبند کے قدیم نصاب سے پیدا ہوئی تھی،اورجب چند جدید سائنسی مسائل کے لیے،قدیم نصاب کی بعض کتب مثلاًنفیسی،شرح الموجز،صدرااور الشفاء کی طرف مراجعت کرنی پڑی،اور اُن کتابوں کے ذریعہ بعض عقدے کھل جانے میں مدد ملی،تو حکیم الامت حضرت تھانوی کی اِس سفارش کی بڑی قدر ہوئی کہ اب بھی:
’’قابلیت نئے نصاب سے نہیں،دیوبند کے قدیم نصاب سے پیدا ہوتی ہے۔‘‘(ملفوظات ج ۱۳ ص۷۳)
اورسمجھ میں آیاکہ:’’ فہم پیدا ہوتی ہے معقولات سے۔‘‘
اور حضرت کی اِس بات کو پڑھ کر جیسے دل لرز اُٹھا،کہ:
’’گو بات توکہنے کی نہیں ،مگر ضرورت کی وجہ سے کہتا ہوں کہ آج کل بہت سے عالم محض الفاظ کے عالم ہیں جن کا فہم درست نہیں؛محض کتابیں
ختم کر کے عالم کہلانے لگے۔بعض کی تو یہ حالت ہے کہ درسیات سے فارغ ہو گئے ہیں،مگر کتابیں سمجھ کر نہیں پڑھیں۔ ‘‘(محاسن اسلام ص ۲۶۷)
پھر اہلِ زیغ کی کثرت سے تحریریں دیکھنے کے بعد اِس ملفوظ کا مطلب سمجھ میں آیا کہ:
’’اگر کسی کو لکھنا آئے اور سمجھ نہ ہو،یہ بھی خدا کا قہر ہے۔‘‘(ملفوظات حکیم الامت جلد ۲ ص ۱۰۰)
اور یہ کہ جن بزرگوں نے معقولات وفلسفہ کی مخالفت کی،اگر وہ اُن لوگوں کو دیکھتے :
’’ جو چھوٹتے ہی قرآن و حدیث کو لے بیٹھتے ہیں،اور ....فہمِ مطالب واحکام میں ایسی طرح دھکے کھاتے ہیں،جیسے
آفتابِ نیم روز کے ہو تے،اندھے دھکے کھا تے ہیں۔پھر اُن خرابیوں کو دیکھتے جو ایسے لو گوں کے ہا تھوں دین میں
واقع ئیں ہو توہر گز یوں نہ فرماتے(یعنی منطق و فلسفہ کو برا نہ کہتے۔ف)؛بلکہ علمائے جامعین کی برکات اور فیوض
کو دیکھ کر تو عجب نہیں .....(منطق و فلسفہ کی تعلیم کی۔ف)ترغیب ہی فرماتے۔‘‘(حضرت نانوتویؒ )
اور حضرت تھانوی کے اِس اِنتباہ کا بھی احساس ہوا کہ:
مدارس کو اصول صحیحہ سے سروکار ہے ،محض جدید کا رعب کافی نہیں: