Deobandi Books

الامام محمد قاسم النانوتوی کی فکر اور بدلتے حالات میں مدارس کی تر جیحات

86 - 104
 کہتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کے پاس سے ہے حالانکہ وہ خدا تعالیٰ کے پاس سے نہیں اور اللہ تعالیٰ پرجھوٹ بولتے ہیں ۔اور وہ جانتے ہیں۔
ممکن ہے کہ تفسیر غلط بیان کرتے ہوں ۔ اور غلط تفسیر میں۔۔۔۔۔ یہ دعوی ہو تا ہے کہ تفسیر قواعد شرعیہ سے ثابت ہے۔۔۔۔ اس صورت میں معنیً 
جز وکتاب ہو نے کا دعوی ہو گا بایں معنی کہ جز وماثبت بالشرع ہے اورہرثابت بالشرع حقیقۃً ثابت بالکتاب ہے کیونکہ دوسرے دلائل شرعیہ
 مظہر احکام ہوتے ہیں نہ کہ مثبتِ احکام۔۔۔۔۔ ملحدوں نے اس امت میں بھی حدیث میں تحریف لفظی بھی اور قرآن میں صرف تحریف معنوی 
کی ہے کیونکہ الفاظ قرآنیہ نصاً محفوظ ہیں(بیان القرآن جلد ۱ ص ۲۴۵۔ مطبع ملتان) اوراصل جڑ خرابی کی حب دنیاوتملق اہل دنیاہے۔ 
میں سچ کہتاہوں کہ جن اہل دنیاکے تملق میں جن مبانی (اعتراض کی بناؤں۔ف) کو تسلیم کرکے اصول اسلامیہ کو بدلاجاتاہے اگر وہ اہل دنیا 
ان اصول کوتسلیم کرـلیں تویہ محبین فوراً اپنی سابق رائے کو چھوڑکر ان مبانی (اعتراض کے منشا اور بنیاد۔ف)کو غلط بتلانے لگیں گے۔ غرض 
قبلۂ توجہ ایسے لوگوںکا رضاہے اہل دنیا کی۔ جس میںرضاہو ادھرہی پھرجاویں گے۔‘‘(الانتباہات المفیدۃ انتباہ سیزدہم)
 منتشرہو نے کے بعد،نظرپھر مرتکز ہوئی،اورامامین (حجۃ الاسلام محمد قاسم نانوتویؒ اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ)کی تصنیفات کی برکت سے سمجھ میں یہ آیا کہ جن حضرات سے دین کو نفع ہوا،وہ معقول ہی کی بدولت اس لیے ہوا کہ علم کی حقیقت اُنہیں حاصل ہوئی:
’’علم یہ ہے کہ اِدراک سلیم اور قوی ہو۔‘‘(ملفوظات حکیم الامت ج۱۵ مزید المجیدص۴۵۱) ۔
درسیات کی دولت کی اُنہیں قدر تھی: 
’’ہمیں یعنی عربی کے طالب علموں کو اپنی ہی دولت کی خبر نہیں۔‘‘
اُن میں قابلیت دیوبند کے قدیم نصاب سے پیدا ہوئی تھی،اورجب چند جدید سائنسی مسائل کے لیے،قدیم نصاب کی بعض کتب مثلاًنفیسی،شرح الموجز،صدرااور الشفاء کی طرف مراجعت کرنی پڑی،اور اُن کتابوں کے ذریعہ بعض عقدے کھل جانے میں مدد ملی،تو حکیم الامت حضرت تھانوی کی اِس سفارش کی بڑی قدر ہوئی کہ اب بھی:
’’قابلیت نئے نصاب سے نہیں،دیوبند کے قدیم نصاب سے پیدا ہوتی ہے۔‘‘(ملفوظات ج ۱۳ ص۷۳)
اورسمجھ میں آیاکہ:’’ فہم پیدا ہوتی ہے معقولات سے۔‘‘
اور حضرت کی اِس بات کو پڑھ کر جیسے دل لرز اُٹھا،کہ:
’’گو بات توکہنے کی نہیں ،مگر ضرورت کی وجہ سے کہتا ہوں کہ آج کل بہت سے عالم محض الفاظ کے عالم ہیں جن کا فہم درست نہیں؛محض کتابیں
ختم کر کے عالم کہلانے لگے۔بعض کی تو یہ حالت ہے کہ درسیات سے فارغ ہو گئے ہیں،مگر کتابیں سمجھ کر نہیں پڑھیں۔ ‘‘(محاسن اسلام ص ۲۶۷)
پھر اہلِ زیغ کی کثرت سے تحریریں دیکھنے کے بعد اِس ملفوظ کا مطلب سمجھ میں آیا کہ:
’’اگر کسی کو لکھنا آئے اور سمجھ نہ ہو،یہ بھی خدا کا قہر ہے۔‘‘(ملفوظات حکیم الامت جلد ۲ ص ۱۰۰)  
اور یہ کہ جن بزرگوں نے معقولات وفلسفہ کی مخالفت کی،اگر وہ اُن لوگوں کو دیکھتے :
’’ جو چھوٹتے ہی قرآن و حدیث کو لے بیٹھتے ہیں،اور ....فہمِ مطالب واحکام میں ایسی طرح دھکے کھاتے ہیں،جیسے 
آفتابِ نیم روز کے ہو تے،اندھے دھکے کھا تے ہیں۔پھر اُن خرابیوں کو دیکھتے جو ایسے لو گوں کے ہا تھوں دین میں
 واقع ئیں ہو توہر گز یوں نہ فرماتے(یعنی منطق و فلسفہ کو برا نہ کہتے۔ف)؛بلکہ علمائے جامعین کی برکات اور فیوض
 کو دیکھ کر تو عجب نہیں .....(منطق و فلسفہ کی تعلیم کی۔ف)ترغیب ہی فرماتے۔‘‘(حضرت نانوتویؒ )	
اور حضرت تھانوی کے اِس اِنتباہ کا بھی احساس ہوا کہ:
مدارس کو اصول صحیحہ سے سروکار ہے ،محض جدید کا رعب کافی نہیں:

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 فہرست مضامین 3 1
3 باب-۱=ام المدارس دار العلوم دیوبند کے موسسین کا امتیازی وصف اور اُن کے مقاصد عالیہ 7 1
4 باب-۲=نیچریت (Naturalism) 10 1
5 باب-۳=فکر دیو بند،تحریک علی گڑھ اورتشکیلِ ندوہ 18 1
6 باب-۴=نصابِ تعلیم 28 1
7 باب۵=معقولات کے داخلِ درس ہونے پر اعتراضات 38 1
8 باب ۶=چند دیگرمفکرین 54 1
9 باب۷=نصاب تعلیم کے حوالہ سے بعض درد مندوں کے اِضطرابات 58 1
12 باب-۸=دیوبند میں حضرت نا نوتویؒ کے رائج کردہ نصا بِ تعلیم پر ایک نظر(اشارات) 61 1
13 باب۹=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت:افکار جدیدہ کے تناظر میں 65 1
14 باب۱۰=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت(اشارات) از. الامام محمد قاسم نا نوتویؒ 70 1
15 باب ۱۱=معقولات اور فلسفہ کی تعلیم اورزمانۂ حال کے اربابِ درس کا اضطراب 75 1
16 باب ۱۲=عصر حاضر میں معقولات و فلسفہ کی شدید ضرورت 78 1
17 باب ۱۳=اصولِ قاسم اور اہلِ مدارس کے تحفظات 79 1
18 باب ۱۴=درسی کتابوں کا طریقۂ تدریس از۔ حکیم الامت مولا نا اشرف علی تھانوی 80 1
19 باب ۱۵=معقولات و فلسفہ کا اِطلاقی پہلو 83 1
20 باب -۱۶= اہل علم کی خدمت میں 88 1
21 باب ۱۷=علوم جدیدہ کا پیدا کردہ مسئلۂ خیر و شر 91 1
25 الف =نیچریت کا پس منظر 10 4
27 ’’انسانیت(Humanism)‘‘ کی حقیقت 10 4
28 ۲-ب= نیچریت کا مفہوم و مصداق اور متعدد شکلیں 12 4
29 حقیقت پسندی (Realism) 13 4
31 افادیت پسندی(Utility) 13 4
32 ندوہ کا منشور 19 5
34 التباساتِ فہد 20 5
35 (۱)مصلحین امت کی تعیین میں خلط 20 5
36 (۲)فاسد اصولوں کے انتساب میں تلبیس 20 5
37 (۳)اعتقادی اجزاء میں خلط و تلبیس 20 5
38 (۴)شعور سر سید کی وضاحت میں تلبیس 21 5
39 (۵)شعورقاسم کے تعارف میں خیانت 22 5
40 استدراک 22 5
41 ناظمِ دینیات کے فرائض مقرر کردہ سرسید احمد خاں 22 5
42 سرسید کی رواداری کا اصل منشا 22 5
43 مدرسۃ العلوم میں دینیات کی تعلیم اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ 23 5
44 مدرسۃ العلوم کی بنیاد اورحضرت مو لانا رشید احمد گنگو ہی،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کو شرکت کی دعوت 24 5
45 سر سید کے قاصد اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کی گفتگو 25 5
46 قاصد کا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کو مشورہ اور حضرتؒ کا جواب 25 5
47 یہ جواب کوئی عارف ہی دے سکتا تھا 25 5
48 دو شعور= شعور قاسم اورشعور سر سید 25 5
49 ۴ -جزئ اول=ادب،تاریخ ، اور مغربی عقلیت 29 6
50 ۴ -الف=ادب 29 6
51 ۴-ج=مغربی عقلیت 33 6
52 ۴-جزئِ دوم =تاریخ، ادب و عقلیت میں مغربی اصولوں کی تقلید کرنے والے چند اہم مفکرین 34 6
53 (۱) خواجہ الطاف حسین حالی 34 6
54 (۲)شمس العلماء شبلی نعمانی 35 6
55 (۳)محقق عبد الماجد دریابادی 35 6
57 (۱)سر سید(۲)علامہ شبلی 38 7
58 (۳)نصابِ تعلیم اورعلامہ سید سلیمان ندویؒ 39 7
59 (۴)نصابِ تعلیم اور جناب ابو الکلام آزاد 39 7
60 (۵)جناب سید سلمان حسینی ندوی او ر نصاب تعلیم 40 7
61 اضطرابات سلمان حسینی بشکلِ التباسِ فکری 42 7
73 مدیر ’’ الشریعۃ‘‘ 54 8
74 (۲)منتسبینِ قاسم 54 8
75 (۱)مولانا عبد العلی فاروقی لکھنوی زید مجدہ ۔ مدیر البدر 58 9
76 (۲)جناب ندیم الواجدی صاحب -مدیر ترجمانِ دیو بند 59 9
77 دیوبند میں ’’مروجہ نصابِ تعلیم‘‘ کی تجویز اور اس کی حکمت: 62 12
78 نصابِ درس کی خوبیاں 63 12
79 نصابِ درس کے وہ اہم امور جن پر سب سے زیادہ غم و غصہ ہے 64 12
80 جدید فلاسفی کی شاخیں اور جدید فلاسفرز 66 13
81 تحلیلی فلاسفی( Analytic philosophy) اور معروضی فلاسفی (Objectivism) 67 13
82 معروضی مطالعہ کی ترجیح-ایک لمحۂ فکریہ 68 13
83 این المفر =منطق سے فرارممکن نہیں 68 13
84 کیا منطق اور فلسفہ سے شغف رکھنے والے علوم نقلیہ سے بے زار ہو جاتے ہیں؟ 72 14
85 کیا اکابر سے منطق اور معقولات کی مذمت منقول ہے؟ 72 14
86 فلسفہ اور معقولات میں ا کابر وسلف کی مہارت 73 14
87 اضطراب اعجازی کی توجیہ 75 15
88 قول صائب : مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ ا ﷲ کی آپ بیتی 76 15
89 (الامام محمد قاسم النانوتوی اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے کلام کی روشنی میں) 78 16
90 (جامع معقول و منقول مولانا ریاست علی ظفر بجنوری مد ظلہ کی تنبیات کی روشنی میں ) 79 17
91 حلِّ مطالب پر اِکتفا کرنا چا ہیے،غیر ضروری تقریر مناسب نہیں 81 18
92 استاذ کے لیے بات کی پَچ مناسب نہیں 81 18
93 مولانا یعقوب صاحب رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
94 حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
95 محققین اکابررحمۃ ا ﷲ علیہم کے درس کی خصوصیت 82 18
96 استاذ کے لیے قابلِ لحاظ امر 82 18
97 اِستعداد کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ 82 18
98 اِستعداد کے موانع 82 18
99 زبان کھل جائے،بولنے کا عادی ہو جائے،اِس کا انتظام 82 18
100 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۱) 83 19
101 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۲) 83 19
102 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۳) 84 19
103 منطق کے بغیر آدمی درسیات پڑھا نہیں سکتا (حضرۃالاستاذعارف با ا ﷲ مولانا صدیق احمد صاحب رحمہ ا ﷲ ) 84 19
104 آپ بیتی: از مولف -فخر الاسلام 84 19
105 علومِ عالیہ کے لیے علومِ آلیہ کی ضرورت ہے 85 19
106 دور جدید میں جن حضرات سے دین کو نفع ہوا،وہ معقول ہی کی بدولت ہوا 85 19
107 مدارس کو اصول صحیحہ سے سروکار ہے ،محض جدید کا رعب کافی نہیں 86 19
108 نصابِ قدیم وجدید کی آویزش کا نتیجہ 87 19
109 خرابی کااصل سبب بزرگوں کے طریق سے بے نیازی 87 19
110 ۱۶-الف=گفتگوکا سرسری جا ئزہ (تلخیص) 88 20
111 ۱۶-ب=مشورے ، گزارشیں اور تجویزیں 89 20
112 (۱)اسلام پر پڑنے والے شبہات کے ازالہ کے لیے تجویز 89 20
113 (۲)چند مسئلوں کو جانچنے کی تجویز 90 20
114 ۱۷-الف= عقلی استدلال 91 21
115 ۱۷-ب=خیر و شر،بھلائی-برائی کا اصول اہلِ مغرب کی نظر میں 91 21
116 ۱۷-ج=خیر و شر،بھلائی-برائی کا معیار از الامام محمد قاسم النانوتویؒ 92 21
117 خیر و شر کا محسوساتی معیار: 92 21
118 خیر و شر کا عقلی معیار 92 21
119 اصول:۱=’’عقل موجدِ معلومات نہیں مخبر معلومات ہے‘‘ 93 21
120 باریک فرق معلوم کرنے کا مسئلہ،اور عقل کے التباسات 93 21
121 اصول:۲=جو چیز مطلوبِ اہم اور اور مقصودِ اعظم ہو تی ہے،اُسی پر بھلائی،برا ئی کا اِنحصار ہو تا ہے 94 21
122 نیک و بد،بھلا،برا ،خیر و شرکے ا طلاقات 94 21
123 جس بات پر انسان کی بھلائی برائی موقوف ہے،اُس کے دریافت کرنے کا طریقہ: 94 21
124 اصول:۳=انسان کا مقصودِ اہم اور مطلبِ اعظم نفع کے کام کر نا اور نقصان کے کا موں سے بچنا ہے 94 21
125 انسان کے اجزاء ترکیبیہ 95 21
126 نتیجۂ بحث:بعضے کام بھلے اور بعضے برے یقیناً ہیں 95 21
127 اصول:۴=عقل اور قوتِ عمل میں رابطہ حاکم اور محکوم کا ہے ۔قوتِ عمل عقل کے لئے وہی درجہ رکھتی ہے جو قلم کاتب کے لئے 95 21
128 اصول:۵=جو چیز کسی کے حق میں خدا نے اول سے نافع پیدا کی ہے،وہ اُس کی رغبتِ طبع ہو تی 96 21
129 رغبت کی مثال 97 21
130 نفر ت کی مثال 97 21
131 اصولِ فطرت کی حقیقت اور عقلِ سلیم 97 21
132 کامل العقل کی اہمیت اور ضرورت 97 21
133 اصول:۶= کامل طبیبِ روحانی کے نسخہ میں کمی بیشی جائز نہیں 98 21
134 اِس بات کو یاد رکھنا چا ہیے کہ بہت کارآمد ہے 98 21
135 اصول:۷= کوئی طبیبِ روحانی اگر ایسی بات بتلائے کہ اُس کا ہو نا بہت سے 98 21
136 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔اصول:۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
137 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔ 98 21
138 ۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
139 اصول:۱۰=دینِ حق کے کر نے نہ کرنے کی باتیں وہی ہیںجن سے عقلِ صاف او رروح پا ک کو رغبت یا نفرت ہو 98 21
140 اصول:۱۱= دینِ حق مرغو بِ طبع ہو تا ہے 99 21
141 اصول:۱۲=روح کو بدن پر ہر بات میں قیاس نہیںکیا جا سکتا 100 21
142 اصول:۱۳= طبیعت کی رغبت کا اثر تب ہی ظا ہر ہو گا جب کہ مانع نہ ہو 100 21
143 دینِ حق جب مرغوبِ طبیعت ٹھہرا،تو طبیعت کے موافق عمل درآمد کرنا چا ہیے؟ 101 21
144 امراضِ روحانی کو مرض نہ سمجھنے کی مثالیں 101 21
145 مثال(۱)معاشرتی امراض(Social diseases) 102 21
146 مثال(۲):نسلوں اور قوموں کے امراض 102 21
148 مثال(۳)امراض پیشہ(Occupation) 102 21
149 مثال(۴)امراضِ عادات(Habbitual diseases) 102 21
150 مثال(۵)موروثی(Heriditary) 102 21
151 تبدیلیٔ زمانہ سے احوال و احکام میں تبدیلی 102 21
152 اصول:۱۴=ہر عمل کسی نہ کسی مرتبے کا حسن و قبح رکھتا ہے 103 21
153 اختتامی التماس 104 21
Flag Counter