باب ۱۳=اصولِ قاسم اور اہلِ مدارس کے تحفظات
(جامع معقول و منقول مولانا ریاست علی ظفر بجنوری مد ظلہ کی تنبیات کی روشنی میں )
عصر حاضر میں اگر نصاب تعلیم میں کسی قسم کی تبدیلی ہو،تو اُس کا اصول کیا ہو گا؟
’’دار العلوم دیوبند کے ناظم تعلیمات اور استاذ حدیث و ادب مولانا ریاست علی ظفر بجنوری نے بالکل صاف طور پر فرمایا کہ جس نصاب
کوپڑھ کر حضرت مولانا نانوتوی ؒاِس لائق ہو ئے کہ جنہیں آج معیار قرار دیا جا رہا ہے اور آپ حضرات بھی اسی نصاب سے لائق و فائق
ہوئے،اِس میں کسی طرح کی ایسی ترمیم جو ہمارے اکابر کے نقشِ قدم سے ہٹ کر ہو گی،قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘
(ماہنامہ دار العلوم ۲۰۰۴ص۴۵مدار سِ اسلامیہ میں عصری علوم کتنے مفید.... بحوالہ جدید سکریٹری رپورٹ رابطہ مدارس عربیہ ص۶۸)
اس میں حضرت مولانا مد ظلہ نے واضح طور پر یہ بات فرمادی کہ:
(۱) حضرت مولانا نانوتویؒکے جاری کردہ نصاب میں’’ اکابر کے نقشِ قدم سے ہٹ کر جوترمیم ہو گی،قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘
اس میں تین باتیں تحقیق طلب ہیں،جب بھی نصابِ تعلیم پر گفتگوہو، یہ امور مذاکرہ کا موضوع بننے ،اور ملحوظ رکھے جانے ضروری ہیں:
(۱) الامام محمد قاسم نانوتویؒکا جاری کردہ نصاب کیا تھا؟(۲) اکابر کی تعیین کہ جن کی رائے نصابِ تعلیم کے باب میں حجت اور سند کا درجہ رکھتی ہو،کہ فکرِ نانوتوی ،اُس رائے کے نفاذ کے بعدبھی محفوظ رہے؟(۳) نقشِ قدم کی حساسیت ؛کہ جو چیزیں ہٹائی گئیں ،اور جو چیزیں داخل کی گئیں ،اِن دونوں باتوں کا منشا اور محرک کیا ہے؟
تاکہ معلوم ہو سکے کہ مدارس کے تحفظات کیا ہیں،اور اس باب میں اُن لوگوں پرجو یہ سوال پیدا کرتے ہیں کہ :
’’مختلف امور میں دینی رہنمائی کے لیے ضروری ہے کہ زمانہ کافہم بھی حاصل کیا جائے۔.....جن کو بغیر اِن علوم(جدیدہ۔ف) کو
داخلِ نصاب کیے، نہیں سمجھا جا سکتا،تو آخرہمارے مدارس کو ان کے سلسلے میں شدید تحفظ کیوں ہے؟‘‘
ایسے لوگوں پر حاملین درس کی طرف سے حجت تمام ہو سکے۔