باب-۸=دیوبند میں حضرت نا نوتویؒ کے رائج کردہ نصا بِ تعلیم پر ایک نظر
اب ہم دیوبند کے اُس نصابِ تعلیم پر،ہم گفتگو کریں گے،جسے الامام محمد قاسم النانوتوی رحمہ ا ﷲ نے جاری فرما یا تھا۔
دیوبند میں ’’مروجہ نصابِ تعلیم‘‘ کی تجویز اور اس کی حکمت:
دیوبند کے نصابِ تعلیم کا پس منظر یہ ہے کہ تیرہویں صدی ہجری کے وسط میں ہندوستان میں علم کے تین مراکزِ فکر قائم تھے،دہلی لکھنؤ اور خیرا باد۔گو نصابِ تعلیم تینوں کا قدرے مشترک تھا،تاہم تینوں کے نقطہائے نظر مختلف تھے۔دہلی میں تفسیر و حدیث پر زیادہ توجہ کی جا تی تھی۔حضرت شاہ ولی اﷲؒ کا خاندان کتاب و سنت کی نشر و اِشاعت میں ہمہ تن مشغول تھا،علومِ معقولہ کی حیثیت ثانوی درجہ کی تھی۔لکھنؤ میں علمائے فرنگی محل پر ما وراء النہر کا ساتویں صدی ہجری والا قدیم رنگ چھایا ہوا تھا،فقہ اور اصولِ فقہ کو اُن کے یہاں سب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی۔خیرا باد مرکز کا علمی موضوع صرف منطق و فلسفہ تھا۔دارا لعلوم دیوبند کے نصاب تعلیم میں اِن تینوں مقامات کی خصوصیات کو جمع کر دیا گیا ۔(الامام محمد قاسم النانوتوی۔حیات،افکار،خدمات ص۲۷۶۔ازمولانا احمد عبد المجیب قاسمی ندوی)
دیوبند کا جو نصابِ تعلیم مقرر کیا گیا ،اُس کی حکمت بیان کرتے ہو ئے،جلسۂ تقسیمِ اَسناد کے موقع پرحضرت نانوتویؒ نے یہ ارشاد فر ما یا:
’’اب ہم اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس سے معلوم ہو جا ئے کہ در بابِ تحصیل یہ طریقۂ خاص کیوں تجویز کیا گیا اور
علوم جدیدہ کو کیوں شامل نہیں کیا گیا؟من جملہ دیگر اسباب کے بڑاسبب اِس بات کا تو یہ ہے کہ تربیت عام ہو ،یا خاص،اِس پہلو
کا لحاظ چاہیے جس کی طرف سے اُن (طلبہ۔ف)کے کمال میں رخنہ (نہ۔ف)پڑتا ہو۔ ‘‘
یعنی وہ ہی چیزیںشامل کرنی چا ہئیں جو کمال میں معین ہوں،اور اُن چیزوں سے گریز چا ہیے جو کمال میں حارج ہوں، اس لیے :
’’صرف بجانبِ علومِ نقلی اور نیز ان علوم ِ(عقلی،فلسفہ ومنطق۔ف)کی طرف ،جن سے اِستعدادِ علوم مروجہ اور اِستعدادِ علومِ جدیدہ
یقیناً حاصل ہوتی ہے(انعطاف)ضروری سمجھا گیا۔‘‘
اِن فقروں کی تشریح کرتے ہوئے مولانا مناظر احسن گیلانی سوانحِ قاسمی میں لکھتے ہیں :
’’آپ دیکھ رہے ہیں ..... حضرت والاؒ نے جہاں اس عام و مشہور غرض کا تذکرہ فر مایا ہے،یعنی مسلمانوں کے ’’علوم مروجہ‘‘ کے سمجھنے کی
اِستعداد پیدا ہوتی ہے،قیل قال،جواب،سوال سے فکری ورزش کراکے طلبہ میں دقیقہ سنجیوں،موشگافیوں کے ملکہ کو اُبھارا جا تا ہے۔
’’اِستعدادِعلوم مروجہ‘‘ سے یہی مراد ہے۔‘‘نیز’’ حضرت والاؒ یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ اس نصاب کو پڑھ کر فارغ ہونے والوں میں’’علوم جدیدہ‘‘
کے حاصل کرنے کی بھی صلاحیت پیدا ہو جا تی ہے۔‘‘
اِس تشریح میں یک گونہ تشنگی ہے،مولانا ئے مرحوم کی مذکورہ بالا تفہیم سے بات کچھ کھل نہیں سکی ہے۔اصل حقیقت جو حضرت نانوتوی کے کلام سے ظاہر ہوتی ہے، یہ ہے کہ ’’علوم مروجہ‘‘ سے مراد کل درسیات ہیں ،جن میں علومِ نقلی اور علومِ عقلی شامل ہیں۔آپ نے علومِ عقلی شامل ہو نے کی حکمت یہ بیان فر مائی ہے کہ
اِن ’’سے اِستعدادِ علوم مروجہ اور اِستعدادِ علومِ جدیدہ یقیناً حاصل ہوتی ہے۔‘‘