جو اہلِ علم اِن چیزوں کا شعور و اِدراک رکھتے ہیں،اُنہیں معلوم ہے کہ کسی بھی علامہ نے مذکورہ بات لکھ کر علم کے نام پر کیا پیش کرنا چاہا ہے؟صرف مغالطہ پیش کرنا یا دھوکہ دینا۔ساری امت کو اُس صحیح راہ سے ہٹانا جہاں سے ہدایت مل سکتی ہے۔
(۳)نصابِ تعلیم اورعلامہ سید سلیمان ندویؒ
علامہ شبلی کے بعداصلاحِ علماء اور اصلاحِ نصاب کی جانشینی علامہ سید سلیمان ندویؒ کی طرف منتقل ہوئی۔’’معارف‘‘اپنی تاریخ کے ابتدائی ۲۴سالوں تک(۱۹۱۶ تا۱۹۳۹)اسی ایشوع کا علمبردار ہا ،اِس عرصہ میں یہ صدا،وہ بار بار بلند کرتا رہا کہ:
’’ہمارا یقین ہے کہ مسلمانوں کی ترقی جدید تعلیم کے فروغ سے زیادہ .....علماء اور ملاؤ ںکی قدیم تعلیم و تربیت کی اصلاح سے ہوگی۔....حالاتِ زمانہ سے
با خبر،علومِ عصری سے آگاہ،موجودہ ضروریاتِ اسلامی سے آشنا،سیاسیاتِ عالم سے واقف علماء پیدا ہوں جن میں وسعتِ نظرہو،اسلام کی مو جودہ مشکلات کا
جدید طرز پر مقابلہ کرنے کی جن میں قوت ہو۔‘‘(معارف ماہ اپریل ۱۹۲۳ء)۔
’’مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ مدارسِ عربیہ کے ....مروجہ عربی نصاب سے بہت بیزار اور متنفر ہو رہا ہے،یا ہو چکا ہے..... اور اس کے ساتھ زندقہ و اِلحاد اور
نئے فتنوں کا شباب اور غیر مذاہب کا تبلیغی پروپاگنڈا زور پر ہے،بنا بریں،اِس وقت اشد ضرورت ہے کہ مشاہیر حضرات علمائے عظام....ہندوستان میں
عربی مدارس کے....موجودہ نصابِ تعلیم میں حسب ضرورت ترمیم فرمائیں۔....یہ متن کسی شرح کا محتاج نہیں۔کیا ہمارے عربی مدارس کے علماء اور مدرسین
کسی ایک مرکز پر اب بھی جمع ہو کر کچھ سوچنے کی زحمت گوارا فرمائیں گے۔‘‘(معارف ماہ اپریل ۱۹۳۸ء)
’’نصاب کی خرابیاں اب دلیلوں کی محتاج نہیں رہیں،ندوۃ العلماء نے اِس کے متعلق جو لٹریچر پیدا کیا ہے،اس سے بڑھ کر وہ لٹریچر ہے جس کو زمانہ کے ہا تھوں
نے لکھ کر پیش کر دیا ہے۔ضرورت اِس کی ہے کہ تمام عربی مدرسوں کے ارکان ایک جگہ مل کر بیٹھیں اور اِس مسئلہ پر غور کریں۔ ‘‘(معارف ماہ دسمبر۸ ۱۹۳ء)
’’درس نظامیہ کے تبرک اور افادہ کا پرانا تخیل اب اتنا بدل گیا ہے کہ اب اِس کے اِبطال کے لیے کسی دلیل کی بھی ضرورت نہیں۔‘‘(معارف ماہ اپریل ۱۹۳۹ء)
(۴)نصابِ تعلیم اور جناب ابو الکلام آزاد
’’معارف‘‘کی اِس صدا کے کچھ دیر بعد’’عربی نصاب کمیٹی ‘‘لکھنؤ ۲۲فروری ۱۹۴۷ء میںبڑی زور وقوت کے ساتھ جناب ابو الکلام آزاد نے بھی یہی صدا لگا ئی :
’’اب مدارس کے نصاب کو عصری تقاضہ کے مطابق ڈھالنا ہو گا ،تاکہ مدارس سے فارغ ہو نے وا لے طلبہ بھی شعبۂ روزگار میں خود کو کھڑا کر سکیں،اور اپنی
پو زیشن مستحکم بنا سکیں۔‘‘۔(دیکھئے:روزنامہ’’ خبریں‘‘۱۱نومبر ۲۰۱۵۔مضمون ڈاکڑمشتاق حسین)
معقولات کو نصاب بدر کرنے اور جدید علوم کو مدارس میں داخل درس کرنے کے باب میں شبلی کے بعد باعتبار کیفیت شاید سب سے زیادہ شور و زور پیدا کرنے والی آواز غالباً موصوف وزیر تعلیم ہی کی تھی۔شاہد زبیری لکھتے ہیں:
جناب ابو الکلام آزاد کے ’’بے دار مغز اور اُن کے گہرے مشاہدے نے اُنہیں علم کلام کو جدید بنیادوں پر قائم کرنے اور اسلام کو عقل کی کسوٹی پر کھرا ثابت کرنے
کے نئے چیلنج کا احساس کر دیا تھا۔ ‘‘ وہ جناب آزاد صاحب کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں:
’’پس اگر اِس کا کوئی علاج ہم کو سوجھتا ہے،تو یہی ہے کہ جد ید علم کلام کی بنیاد ڈالی جائے اور اسلام کو عقل کے موافق کر دکھا یا جا ئے اور اِس طرح کہ اسلامی
معتقدات بھی قائم رہیں اور تطبیق کی تطبیق بھی ہو جا ئے۔‘‘
جناب شاہد ز بیری نے ’’علماء اور ارباب مدارس کو مخاطب کرتے ہو ئے ‘‘وزیر تعلیم کے ’’ زخمی دل سے ‘‘لگائی گئی ’’صدا‘‘کو ہم تک پہنچانے کا فریضہ بھی انجام دیا ہے کہ:
’’آج۱۹۴۷ء میں اپنے مدرسوں میں جن چیزوں کو ہم معقولات کے نام سے پڑھا رہے ہیں،وہ وہی چیزیں ہیں جن سے دنیا کا دماغی کارواں دو سو برس پہلے