Deobandi Books

الامام محمد قاسم النانوتوی کی فکر اور بدلتے حالات میں مدارس کی تر جیحات

29 - 104
علامہ شبلی نے کسی موقع پر قدیم نصاب کی کمی باور کراتے ہوئے لکھاتھا کہ :’’قدیم نصاب میںادب اور لٹریچر کا حصہ نہایت کم ہے۔......(اسی طرح)
 تاریخ اسلام اور عام تاریخ کی ایک کتاب بھی نہ تھی۔.....‘‘(مقالات شبلی بحوالہ معارف علی گڑھ،فروری ۱۹۰۰؁ء،ص۱۵۷،۱۵۸)
------------------------------
حاشیہ:(۱)لیکن اِس سوال کا جواب ۱۹ ویں صدی کے وسط سے لے کرآج تک اُس طائفہ کے ذمہ ہے جو سر سید کو مذہبی ریفارمر کہتا یا سمجھتا ہے ،یا سر سید کے اصولوں کی پیروی کرنے والوں مثلاً شبلی وغیرہ کو فکری طور پر اپنا متبوع و مقتدا عملاً ظاہر کرتا ہے کہ ’’جو ضرورتیں اسلام کو مو جودہ زمانہ میں پیش آئیں،اُن سے وہ بزرگ بالکل بے خبر تھے‘‘اورسرسید اگرباخبر ہو گئے تھے،تو کیا عین عہدِ سر سید میں امامِ محمد قاسم نانوتویؒ بھی بے خبرہی رہے؛جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو ضرورتیں اسلام کو انیسویں صدی میں پیش آئیں،اور جن جن مسائل سے سرسید نے تعرض کیا،نہ صرف اُن تمام مسائل سے حضرت نا نوتوی نے بھی تعرض کیا؛بلکہ دو حیثیت سے امامِ قاسم نا نوتویؒ کا کام نمایاں ہے،(۱)سائنس،علومِ جدیدہ اور مغربی اصولوں سے ناشی تمام مسائل کا احاطہ اور اِستقصاء کے سایھ حل پیش کیا(۲)خود سر سید نے شریعت کے علمی و عملی اجزاء میں عقلی بنیادوں پرجو اِلتباسات پیدا کیے تھے،اُنہیں دور کیا،اور سر سید نے جن قواعد اور ’’فطری قوانین‘‘ پر بھروسہ کیا تھا،جدید پیرامیٹر پر اُن کی خرابی دکھلائی،یعنی  مخالفین کے مسلمات سے جواب دیا۔ 
نصاب تعلیم میں جدید فلسفہ کیوں شامل نہیں ہے ،اِس کے متعلق ہم شروع میں عرض کر چکے ،اور آئندہ بھی اِس پر گفتگو کریں گے ۔البتہ؛ادب و تاریخ کے باب میںمفکرِ موصوف کی ذکر کردہ ضرورت کوواقعات کے تناظر میں دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انیسویں صدی ومابعد ادوار میں اِن فنون کا جو تصور قائم ہوا ہے،اُس پر ایک نظر ڈال لی جا ئے،تاکہ سر سید کے ذریعہ جاری ہونے وا لا طرز اور حضرت نانوتوی کے ذریعہ قائم ہونے وا لے موقف میں فرق و امتیاز کرناآسان ہو سکے؛کیوں کہ دور حاضر میںنفسیاتی طور پرمتعدد تحلیلی فلاسفر(Analytic philosophers)نے یہ عقدہ کھولا ہے کہ زبان ایک اصولی؛بلکہ واحد ذریعہ ہے اپنے خیالات کے غلبے کا۔اگر زبان و بیان ایسا اختیار کیا گیا جس میں نیچریت ،معروضیت ،آخرت بیزار آرزؤں اور خواہشوں کا لحاظ ہو،تو اس سے انسان کے مادی مفادات کا تحفظ فراہم ہوگا،اور اگر ایسا اختیار کیا گیا کہ جس میں علم،عقل،استدلال کی قوت سے افکار باطلہ کا اِبطال،معقولات اور صحیح فلسفہ سے تلبث، روحانیت کی اہمیت و فوقیت پر زور ہو اور خدا و رسول کے احکام کے سامنے نفسانی جذبوں و خواہشوں کی پامالی ہو،تو اُس سے کبھی مادی رجحانات کو پنپنے کا موقع نہیں مل سکے گا۔ آگے ہم جدید عہد میں ادب،تاریخ اور عقلیت (یعنی جو Reasonاور Realismکی نمائندہ ہے)کا ایک مطالعاتی جائزہ پیش کرتے ہیں۔
۴ -جزئ اول=ادب،تاریخ ، اور مغربی عقلیت 	
۴ -الف=ادب 
ادب عربی ہو یا اردو انیسویں صدی سے ادب،تاریخ اور لٹریچر سب ہی میں وہ سادگی اور پاکیزگی باقی نہیں رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔فنون وغیرہ کی’’بعضی اصطلاحات جو مذہبِ اسلام میں استعمال کی گئی ہیں؛مگر اُنہیں بالکل ہی نئے معنی دیے گئے ہیں،یورپ میں گمراہی کا آغاز در اصل اسی طرح ہوا،پھر مغرب کی اتباع میں مشرق میں بھی یہی ہوا۔‘‘یعنی بظاہر بے ضرر؛بلکہ پر کشش لفظ اور اصطلاح کا خاص اغراض و مقاصد کو ہدف بناکر خاص اصولوں کے لیے استعمال کیا گیا۔ادب میں بھی ’’اجتماع.‘Socialism‘‘ کے مقاصد کے تحت اصول وضع کیے گئے۔ڈاکٹر سید عبد اﷲ نے جدیدادب میں اُن تصورات کاذکر کیا ہے جنہوں نے قدیم ادب کی روایت کی بساط اُلٹ کررکھ دی۔وہ لکھتے ہیں:
‘‘ہندوستان میں سر سید کے زمانہ سے پہلے اردو ادبیات کا دائرہ مذہب،تصوف،تاریخ اور  تذکرہ نویسی میں منحصر تھا،جس میں’’اجتماع انسانی ‘‘
کا اصول علی العموم مد نظر نہ تھا۔علوم طبعی کا مذاق بہت کم تھا۔اور مذہب کی اُن قدروں پر خاص زور دیا جا تا تھا جو زندگی کے مادی پہلؤں سے 
دور لے جا نے وا لی ہوں ۔‘‘اُس جدید ادب  کے ا وصاف کو جس کی ایجاد کا سہرا ہندوستان میں سرسید کے سر ہے،’’مجموعی لحاظ سے تین چار
 جملوں میں یوں سمیٹا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک میںسر سید ہی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے فکر و ادب میں روایت کی تقلید سے ہٹ کر آزادیٔ
 رائے اور آزاد خیالی کی رسم جاری کی اور ایک ایسے مکتب کی بنیاد رکھی جس کے عقائد میں عقل،نیچر،تہذیب(یعنی مغرب زدہ قوانین فطرت 
کے زیر اثر سائنسی تہذیب۔ف)اور مادی ترقی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔کہنے کو تو یہ چندمعمولی الفاظ ہیں،مگر اِنہی چند سادہ لفظوں میں

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 فہرست مضامین 3 1
3 باب-۱=ام المدارس دار العلوم دیوبند کے موسسین کا امتیازی وصف اور اُن کے مقاصد عالیہ 7 1
4 باب-۲=نیچریت (Naturalism) 10 1
5 باب-۳=فکر دیو بند،تحریک علی گڑھ اورتشکیلِ ندوہ 18 1
6 باب-۴=نصابِ تعلیم 28 1
7 باب۵=معقولات کے داخلِ درس ہونے پر اعتراضات 38 1
8 باب ۶=چند دیگرمفکرین 54 1
9 باب۷=نصاب تعلیم کے حوالہ سے بعض درد مندوں کے اِضطرابات 58 1
12 باب-۸=دیوبند میں حضرت نا نوتویؒ کے رائج کردہ نصا بِ تعلیم پر ایک نظر(اشارات) 61 1
13 باب۹=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت:افکار جدیدہ کے تناظر میں 65 1
14 باب۱۰=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت(اشارات) از. الامام محمد قاسم نا نوتویؒ 70 1
15 باب ۱۱=معقولات اور فلسفہ کی تعلیم اورزمانۂ حال کے اربابِ درس کا اضطراب 75 1
16 باب ۱۲=عصر حاضر میں معقولات و فلسفہ کی شدید ضرورت 78 1
17 باب ۱۳=اصولِ قاسم اور اہلِ مدارس کے تحفظات 79 1
18 باب ۱۴=درسی کتابوں کا طریقۂ تدریس از۔ حکیم الامت مولا نا اشرف علی تھانوی 80 1
19 باب ۱۵=معقولات و فلسفہ کا اِطلاقی پہلو 83 1
20 باب -۱۶= اہل علم کی خدمت میں 88 1
21 باب ۱۷=علوم جدیدہ کا پیدا کردہ مسئلۂ خیر و شر 91 1
25 الف =نیچریت کا پس منظر 10 4
27 ’’انسانیت(Humanism)‘‘ کی حقیقت 10 4
28 ۲-ب= نیچریت کا مفہوم و مصداق اور متعدد شکلیں 12 4
29 حقیقت پسندی (Realism) 13 4
31 افادیت پسندی(Utility) 13 4
32 ندوہ کا منشور 19 5
34 التباساتِ فہد 20 5
35 (۱)مصلحین امت کی تعیین میں خلط 20 5
36 (۲)فاسد اصولوں کے انتساب میں تلبیس 20 5
37 (۳)اعتقادی اجزاء میں خلط و تلبیس 20 5
38 (۴)شعور سر سید کی وضاحت میں تلبیس 21 5
39 (۵)شعورقاسم کے تعارف میں خیانت 22 5
40 استدراک 22 5
41 ناظمِ دینیات کے فرائض مقرر کردہ سرسید احمد خاں 22 5
42 سرسید کی رواداری کا اصل منشا 22 5
43 مدرسۃ العلوم میں دینیات کی تعلیم اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ 23 5
44 مدرسۃ العلوم کی بنیاد اورحضرت مو لانا رشید احمد گنگو ہی،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کو شرکت کی دعوت 24 5
45 سر سید کے قاصد اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کی گفتگو 25 5
46 قاصد کا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کو مشورہ اور حضرتؒ کا جواب 25 5
47 یہ جواب کوئی عارف ہی دے سکتا تھا 25 5
48 دو شعور= شعور قاسم اورشعور سر سید 25 5
49 ۴ -جزئ اول=ادب،تاریخ ، اور مغربی عقلیت 29 6
50 ۴ -الف=ادب 29 6
51 ۴-ج=مغربی عقلیت 33 6
52 ۴-جزئِ دوم =تاریخ، ادب و عقلیت میں مغربی اصولوں کی تقلید کرنے والے چند اہم مفکرین 34 6
53 (۱) خواجہ الطاف حسین حالی 34 6
54 (۲)شمس العلماء شبلی نعمانی 35 6
55 (۳)محقق عبد الماجد دریابادی 35 6
57 (۱)سر سید(۲)علامہ شبلی 38 7
58 (۳)نصابِ تعلیم اورعلامہ سید سلیمان ندویؒ 39 7
59 (۴)نصابِ تعلیم اور جناب ابو الکلام آزاد 39 7
60 (۵)جناب سید سلمان حسینی ندوی او ر نصاب تعلیم 40 7
61 اضطرابات سلمان حسینی بشکلِ التباسِ فکری 42 7
73 مدیر ’’ الشریعۃ‘‘ 54 8
74 (۲)منتسبینِ قاسم 54 8
75 (۱)مولانا عبد العلی فاروقی لکھنوی زید مجدہ ۔ مدیر البدر 58 9
76 (۲)جناب ندیم الواجدی صاحب -مدیر ترجمانِ دیو بند 59 9
77 دیوبند میں ’’مروجہ نصابِ تعلیم‘‘ کی تجویز اور اس کی حکمت: 62 12
78 نصابِ درس کی خوبیاں 63 12
79 نصابِ درس کے وہ اہم امور جن پر سب سے زیادہ غم و غصہ ہے 64 12
80 جدید فلاسفی کی شاخیں اور جدید فلاسفرز 66 13
81 تحلیلی فلاسفی( Analytic philosophy) اور معروضی فلاسفی (Objectivism) 67 13
82 معروضی مطالعہ کی ترجیح-ایک لمحۂ فکریہ 68 13
83 این المفر =منطق سے فرارممکن نہیں 68 13
84 کیا منطق اور فلسفہ سے شغف رکھنے والے علوم نقلیہ سے بے زار ہو جاتے ہیں؟ 72 14
85 کیا اکابر سے منطق اور معقولات کی مذمت منقول ہے؟ 72 14
86 فلسفہ اور معقولات میں ا کابر وسلف کی مہارت 73 14
87 اضطراب اعجازی کی توجیہ 75 15
88 قول صائب : مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ ا ﷲ کی آپ بیتی 76 15
89 (الامام محمد قاسم النانوتوی اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے کلام کی روشنی میں) 78 16
90 (جامع معقول و منقول مولانا ریاست علی ظفر بجنوری مد ظلہ کی تنبیات کی روشنی میں ) 79 17
91 حلِّ مطالب پر اِکتفا کرنا چا ہیے،غیر ضروری تقریر مناسب نہیں 81 18
92 استاذ کے لیے بات کی پَچ مناسب نہیں 81 18
93 مولانا یعقوب صاحب رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
94 حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
95 محققین اکابررحمۃ ا ﷲ علیہم کے درس کی خصوصیت 82 18
96 استاذ کے لیے قابلِ لحاظ امر 82 18
97 اِستعداد کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ 82 18
98 اِستعداد کے موانع 82 18
99 زبان کھل جائے،بولنے کا عادی ہو جائے،اِس کا انتظام 82 18
100 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۱) 83 19
101 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۲) 83 19
102 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۳) 84 19
103 منطق کے بغیر آدمی درسیات پڑھا نہیں سکتا (حضرۃالاستاذعارف با ا ﷲ مولانا صدیق احمد صاحب رحمہ ا ﷲ ) 84 19
104 آپ بیتی: از مولف -فخر الاسلام 84 19
105 علومِ عالیہ کے لیے علومِ آلیہ کی ضرورت ہے 85 19
106 دور جدید میں جن حضرات سے دین کو نفع ہوا،وہ معقول ہی کی بدولت ہوا 85 19
107 مدارس کو اصول صحیحہ سے سروکار ہے ،محض جدید کا رعب کافی نہیں 86 19
108 نصابِ قدیم وجدید کی آویزش کا نتیجہ 87 19
109 خرابی کااصل سبب بزرگوں کے طریق سے بے نیازی 87 19
110 ۱۶-الف=گفتگوکا سرسری جا ئزہ (تلخیص) 88 20
111 ۱۶-ب=مشورے ، گزارشیں اور تجویزیں 89 20
112 (۱)اسلام پر پڑنے والے شبہات کے ازالہ کے لیے تجویز 89 20
113 (۲)چند مسئلوں کو جانچنے کی تجویز 90 20
114 ۱۷-الف= عقلی استدلال 91 21
115 ۱۷-ب=خیر و شر،بھلائی-برائی کا اصول اہلِ مغرب کی نظر میں 91 21
116 ۱۷-ج=خیر و شر،بھلائی-برائی کا معیار از الامام محمد قاسم النانوتویؒ 92 21
117 خیر و شر کا محسوساتی معیار: 92 21
118 خیر و شر کا عقلی معیار 92 21
119 اصول:۱=’’عقل موجدِ معلومات نہیں مخبر معلومات ہے‘‘ 93 21
120 باریک فرق معلوم کرنے کا مسئلہ،اور عقل کے التباسات 93 21
121 اصول:۲=جو چیز مطلوبِ اہم اور اور مقصودِ اعظم ہو تی ہے،اُسی پر بھلائی،برا ئی کا اِنحصار ہو تا ہے 94 21
122 نیک و بد،بھلا،برا ،خیر و شرکے ا طلاقات 94 21
123 جس بات پر انسان کی بھلائی برائی موقوف ہے،اُس کے دریافت کرنے کا طریقہ: 94 21
124 اصول:۳=انسان کا مقصودِ اہم اور مطلبِ اعظم نفع کے کام کر نا اور نقصان کے کا موں سے بچنا ہے 94 21
125 انسان کے اجزاء ترکیبیہ 95 21
126 نتیجۂ بحث:بعضے کام بھلے اور بعضے برے یقیناً ہیں 95 21
127 اصول:۴=عقل اور قوتِ عمل میں رابطہ حاکم اور محکوم کا ہے ۔قوتِ عمل عقل کے لئے وہی درجہ رکھتی ہے جو قلم کاتب کے لئے 95 21
128 اصول:۵=جو چیز کسی کے حق میں خدا نے اول سے نافع پیدا کی ہے،وہ اُس کی رغبتِ طبع ہو تی 96 21
129 رغبت کی مثال 97 21
130 نفر ت کی مثال 97 21
131 اصولِ فطرت کی حقیقت اور عقلِ سلیم 97 21
132 کامل العقل کی اہمیت اور ضرورت 97 21
133 اصول:۶= کامل طبیبِ روحانی کے نسخہ میں کمی بیشی جائز نہیں 98 21
134 اِس بات کو یاد رکھنا چا ہیے کہ بہت کارآمد ہے 98 21
135 اصول:۷= کوئی طبیبِ روحانی اگر ایسی بات بتلائے کہ اُس کا ہو نا بہت سے 98 21
136 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔اصول:۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
137 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔ 98 21
138 ۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
139 اصول:۱۰=دینِ حق کے کر نے نہ کرنے کی باتیں وہی ہیںجن سے عقلِ صاف او رروح پا ک کو رغبت یا نفرت ہو 98 21
140 اصول:۱۱= دینِ حق مرغو بِ طبع ہو تا ہے 99 21
141 اصول:۱۲=روح کو بدن پر ہر بات میں قیاس نہیںکیا جا سکتا 100 21
142 اصول:۱۳= طبیعت کی رغبت کا اثر تب ہی ظا ہر ہو گا جب کہ مانع نہ ہو 100 21
143 دینِ حق جب مرغوبِ طبیعت ٹھہرا،تو طبیعت کے موافق عمل درآمد کرنا چا ہیے؟ 101 21
144 امراضِ روحانی کو مرض نہ سمجھنے کی مثالیں 101 21
145 مثال(۱)معاشرتی امراض(Social diseases) 102 21
146 مثال(۲):نسلوں اور قوموں کے امراض 102 21
148 مثال(۳)امراض پیشہ(Occupation) 102 21
149 مثال(۴)امراضِ عادات(Habbitual diseases) 102 21
150 مثال(۵)موروثی(Heriditary) 102 21
151 تبدیلیٔ زمانہ سے احوال و احکام میں تبدیلی 102 21
152 اصول:۱۴=ہر عمل کسی نہ کسی مرتبے کا حسن و قبح رکھتا ہے 103 21
153 اختتامی التماس 104 21
Flag Counter