علامہ شبلی نے کسی موقع پر قدیم نصاب کی کمی باور کراتے ہوئے لکھاتھا کہ :’’قدیم نصاب میںادب اور لٹریچر کا حصہ نہایت کم ہے۔......(اسی طرح)
تاریخ اسلام اور عام تاریخ کی ایک کتاب بھی نہ تھی۔.....‘‘(مقالات شبلی بحوالہ معارف علی گڑھ،فروری ۱۹۰۰ء،ص۱۵۷،۱۵۸)
------------------------------
حاشیہ:(۱)لیکن اِس سوال کا جواب ۱۹ ویں صدی کے وسط سے لے کرآج تک اُس طائفہ کے ذمہ ہے جو سر سید کو مذہبی ریفارمر کہتا یا سمجھتا ہے ،یا سر سید کے اصولوں کی پیروی کرنے والوں مثلاً شبلی وغیرہ کو فکری طور پر اپنا متبوع و مقتدا عملاً ظاہر کرتا ہے کہ ’’جو ضرورتیں اسلام کو مو جودہ زمانہ میں پیش آئیں،اُن سے وہ بزرگ بالکل بے خبر تھے‘‘اورسرسید اگرباخبر ہو گئے تھے،تو کیا عین عہدِ سر سید میں امامِ محمد قاسم نانوتویؒ بھی بے خبرہی رہے؛جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو ضرورتیں اسلام کو انیسویں صدی میں پیش آئیں،اور جن جن مسائل سے سرسید نے تعرض کیا،نہ صرف اُن تمام مسائل سے حضرت نا نوتوی نے بھی تعرض کیا؛بلکہ دو حیثیت سے امامِ قاسم نا نوتویؒ کا کام نمایاں ہے،(۱)سائنس،علومِ جدیدہ اور مغربی اصولوں سے ناشی تمام مسائل کا احاطہ اور اِستقصاء کے سایھ حل پیش کیا(۲)خود سر سید نے شریعت کے علمی و عملی اجزاء میں عقلی بنیادوں پرجو اِلتباسات پیدا کیے تھے،اُنہیں دور کیا،اور سر سید نے جن قواعد اور ’’فطری قوانین‘‘ پر بھروسہ کیا تھا،جدید پیرامیٹر پر اُن کی خرابی دکھلائی،یعنی مخالفین کے مسلمات سے جواب دیا۔
نصاب تعلیم میں جدید فلسفہ کیوں شامل نہیں ہے ،اِس کے متعلق ہم شروع میں عرض کر چکے ،اور آئندہ بھی اِس پر گفتگو کریں گے ۔البتہ؛ادب و تاریخ کے باب میںمفکرِ موصوف کی ذکر کردہ ضرورت کوواقعات کے تناظر میں دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انیسویں صدی ومابعد ادوار میں اِن فنون کا جو تصور قائم ہوا ہے،اُس پر ایک نظر ڈال لی جا ئے،تاکہ سر سید کے ذریعہ جاری ہونے وا لا طرز اور حضرت نانوتوی کے ذریعہ قائم ہونے وا لے موقف میں فرق و امتیاز کرناآسان ہو سکے؛کیوں کہ دور حاضر میںنفسیاتی طور پرمتعدد تحلیلی فلاسفر(Analytic philosophers)نے یہ عقدہ کھولا ہے کہ زبان ایک اصولی؛بلکہ واحد ذریعہ ہے اپنے خیالات کے غلبے کا۔اگر زبان و بیان ایسا اختیار کیا گیا جس میں نیچریت ،معروضیت ،آخرت بیزار آرزؤں اور خواہشوں کا لحاظ ہو،تو اس سے انسان کے مادی مفادات کا تحفظ فراہم ہوگا،اور اگر ایسا اختیار کیا گیا کہ جس میں علم،عقل،استدلال کی قوت سے افکار باطلہ کا اِبطال،معقولات اور صحیح فلسفہ سے تلبث، روحانیت کی اہمیت و فوقیت پر زور ہو اور خدا و رسول کے احکام کے سامنے نفسانی جذبوں و خواہشوں کی پامالی ہو،تو اُس سے کبھی مادی رجحانات کو پنپنے کا موقع نہیں مل سکے گا۔ آگے ہم جدید عہد میں ادب،تاریخ اور عقلیت (یعنی جو Reasonاور Realismکی نمائندہ ہے)کا ایک مطالعاتی جائزہ پیش کرتے ہیں۔
۴ -جزئ اول=ادب،تاریخ ، اور مغربی عقلیت
۴ -الف=ادب
ادب عربی ہو یا اردو انیسویں صدی سے ادب،تاریخ اور لٹریچر سب ہی میں وہ سادگی اور پاکیزگی باقی نہیں رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔فنون وغیرہ کی’’بعضی اصطلاحات جو مذہبِ اسلام میں استعمال کی گئی ہیں؛مگر اُنہیں بالکل ہی نئے معنی دیے گئے ہیں،یورپ میں گمراہی کا آغاز در اصل اسی طرح ہوا،پھر مغرب کی اتباع میں مشرق میں بھی یہی ہوا۔‘‘یعنی بظاہر بے ضرر؛بلکہ پر کشش لفظ اور اصطلاح کا خاص اغراض و مقاصد کو ہدف بناکر خاص اصولوں کے لیے استعمال کیا گیا۔ادب میں بھی ’’اجتماع.‘Socialism‘‘ کے مقاصد کے تحت اصول وضع کیے گئے۔ڈاکٹر سید عبد اﷲ نے جدیدادب میں اُن تصورات کاذکر کیا ہے جنہوں نے قدیم ادب کی روایت کی بساط اُلٹ کررکھ دی۔وہ لکھتے ہیں:
‘‘ہندوستان میں سر سید کے زمانہ سے پہلے اردو ادبیات کا دائرہ مذہب،تصوف،تاریخ اور تذکرہ نویسی میں منحصر تھا،جس میں’’اجتماع انسانی ‘‘
کا اصول علی العموم مد نظر نہ تھا۔علوم طبعی کا مذاق بہت کم تھا۔اور مذہب کی اُن قدروں پر خاص زور دیا جا تا تھا جو زندگی کے مادی پہلؤں سے
دور لے جا نے وا لی ہوں ۔‘‘اُس جدید ادب کے ا وصاف کو جس کی ایجاد کا سہرا ہندوستان میں سرسید کے سر ہے،’’مجموعی لحاظ سے تین چار
جملوں میں یوں سمیٹا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک میںسر سید ہی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے فکر و ادب میں روایت کی تقلید سے ہٹ کر آزادیٔ
رائے اور آزاد خیالی کی رسم جاری کی اور ایک ایسے مکتب کی بنیاد رکھی جس کے عقائد میں عقل،نیچر،تہذیب(یعنی مغرب زدہ قوانین فطرت
کے زیر اثر سائنسی تہذیب۔ف)اور مادی ترقی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔کہنے کو تو یہ چندمعمولی الفاظ ہیں،مگر اِنہی چند سادہ لفظوں میں