حاشیہ(۱)اعمال کے حسن و قبح اور اُن کی بھلائی برائی کا بیان تقریر دل پذیر میںص۱۳۸ سے صفحہ ۱۵۲ ؛بلکہ ص۱۷۵ تک چلا گیا ہے ،جہاںپہلے چند مطالبِ عالیہ ذکر کیے گئے ہیں۔پھر اِس بحث پر چند دلیلیں ؛یا کہنا چا ہیے کہ خیر و شر کے چار معیارات بیان کیے گئے ہیں،پھرص۱۵۶ سے ان معیارات پر تفریع ہے ۔پھر اسی پر بس نہیں؛بلکہ اُن کے مقابل و اضداد چار معیارات مزید مذکور ہیں (جو اپنے جزئیات اِس قدر محیط ہیںکہ اِن کی وسعت کے آگے میدانِ خیال کا دئرہ تنگ ہے۔کذا قال الامام۔پھراِن معیارات ثمانیہ کے بعد ص۱۶۴تک تین فوائد اور ص۱۶۵ تا ۱۷۲ معتزلہ کا رد تین خرا بیوں کے ذیل میں مذکور ہے۔
حاشیہ(۲)عقلی امور نیں حضرت نا نوتوی ؒکی پیش کردہ مفاہمت (Interfaith)ہے،جس پر کھلی بحث کی جا سکے جو وقت کی عین دعوت و دعایت ہے۔) (ص۱۳۹)
’’ا لغرض،فہمِ نا رسا میں اِس کم فہم کے یوں آتا ہے کہ ا نسان ایک معجونِ مرکب ہے کہ چند مفردات سے اِسے ترکیب دے کر بنا یا ہے:
انسان کے اجزاء ترکیبیہ:
(۱)اول توعقل،جو سب میں جزوِ اعظم ہے۔ف(۲)دوسرے شوق،یا خوف(۳)تیسرے ارادہ اور اختیار(۴)چوتھے قدرت اور طاقت(۵)پانچویں،یہ ہاتھ ،پاؤں آنکھ ،ناک وغیرہ (اعضاء و جوارح۔ف)
کوئی ایسا فردِ بشر نہیں جس میں یہ پانچ با تیں نہ ہوں۔ہاں کمی، زیادتی کا فرق ہو تا ہے۔اور اگر کسی میں(یہ پانچ با تیں ۔ف )نہ ہوں تو وہ انسان نہیں۔،تصویرِ انسان ہے۔سو:
(۱)عقل سے غرضِ اصلی نیک و بد کی تمیز اور بھلے برے کو پہچا ننا ہے۔ اور
(۲)شوق کا کام بھلی بات کی طرف ارادے کا اُبھارنا ہے۔اور
(۳)خوف کا کام بری بات سے ارادے کا ہٹانا ۔اور
(۴) ارادے کا کام قوت سے خدمت لینا ۔اور
(۵)قوت کا کام ہاتھ ،پاؤں سے بیگار لینی۔
مگراِن سب کی اصل دو باتیں ہیں:(۱)ایک تو وہی عقلِ مذکور( جس سے نیک و بد کی تمیز اور بھلے برے کو پہچا نا جا سکے۔ف)(۲)دوسری (قوتِ عمل یعنی۔ف) وہ جو ہر جس سے عمل ہو سکے،تو اخیرکی چارباتیں اِسی غرض کے لیے ہیں۔اِسی لیے اُن سب کو ملا کر ہم ایک نام ،یعنی قوتِ عمل تجویز کرتے ہیں۔
بالجملہ،عقل اور قوتِ عمل میں رابطہ حاکم اور محکوم کا سا ہے کہ حاکمِ با لا دست،اعنی خالقِ عالم نے اول کو حاکم اور دوسرے کو محکوم بنا دیا ہے۔اور اگر کبھی قوتِ عمل خواہشِ خلافِ عقل کے تغلُّب کے سبب،عقل کی تعمیلِ احکام میں قصور کرے،تو عاقلوں کے نزدیک اِس عقل کی درماندگی اور نفع کا حاصل نہ ہو نا اور نقصان کا پہنچنا (تو )لازم آئے گا(لیکن عقل کا۔ف)منصبِ حکومت نہیں جا تا رہا۔
نتیجۂ بحث:بعضے کام بھلے اور بعضے برے یقیناً ہیں:
اب سنئے!کہ جب عقلِ مفرد کا کام تمییز و تعیینِ نیک و بد ٹھہرا،اور قوتِ عمل کا کام عمل کر نا،تو اول کی حکومت اور دوسرے کی محکومی کے لحاظ سے مجموعۂ مرکب(یعنی انسان۔ف)کا کام،نفع کے کام کرنا اور نقصان کے کاموں سے بچنا ٹھہرا،تو اِس صورت میں بے شک بعضے کام بھلے اور بعضے برے ہوں گے۔ورنہ عقل کس کی تمیز کرے گی اور قوتِ عمل کس بات میں عقل کی تابع داری کرے گی؟‘‘(ص۱۴۰)
اصول:۴=عقل اور قوتِ عمل میں رابطہ حاکم اور محکوم کا ہے ۔قوتِ عمل عقل کے لئے وہی درجہ رکھتی ہے جو قلم کاتب کے لئے
’’اِس جگہ ایک لطیفہ معلوم ہوا۔وہ یہ ہے کہ قوتِ عمل عقل کے سا منے بمنزلۂ قلم کے(ہے۔ف)کاتب کے آگے یا بمنزلۂ بسولے کے بڑھئی کے مقابلے میں ہے۔تو جیسے قلم یا بسولا اپنے لیے کچھ نہیں کرتے۔نفع نقصان اُن کے کاموں کا جو کچھ ہے،کاتب یا بڑھئی کو پہنچتا ہے۔اور اگر کسی کام میں قلم ٹوٹ جا تا ہے،یا بسولا جھڑ جا تا ہے،تو اول وہ ایسے کام ہو تے ہیں کہ جو مقصودِ اصلی،قلم اور بسولے سے نہیں۔ہاں مقصودِ اصلی کے حاصل کرنے میں البتہ فی الجملہ نقصان پیش آتا ہے۔مع ہذا،دو نوں صورتوں میں عاقلوں کے نزدیک بڑھئی اور کاتب ہی کا نقصان ہے۔قلم اور بسولے کا عقل کے نزدیک کچھ نقصان نہیں۔کیوں کہ(اگرچہ