گزر چکا ہے۔آج اُن کی دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔ ‘‘وہ برملا کہتے ہیں:اگر آپ یہ نہیں کر سکتے(نصاب کی تبدیلی کا عمل۔ف) ،تو میں آپ سے کہوں گا کہ آپ
زمانہ سے واقف نہیں ہیں؛بلکہ زمانہ سے لڑ رہے ہیں۔......‘‘ ’’آج جو تعلیم آپ اِن مدرسوں میں دے رہے ہیں،آپ وقت کی چال سے کیسے جوڑ سکتے
ہیں؟نہیں جوڑ سکتے۔....کوئی تعلیم کامیاب نہیں ہو سکتی،اگر وہ وقت اور زندگی کی چال کے ساتھ نہ ہو۔‘‘(روزنامہ’’ خبریں‘‘۱۱نومبر ۲۰۱۵)’
یہ نومبر ۲۰۱۵ء کے مضمون کے اقتباسات ہیں۔تہذیب الاخلاق اپریل ۲۰۱۶ء کے ایک مضمون میں علی گڑھ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسرڈاکٹر عبید اﷲ فہد لکھتے ہیں:
(۱)’’مدارس میں تجدید کا عمل متقاضی ہے کہ ..... نصاب کی اصلاح میں ایسی تبدیلیاں ہوتی رہیں جو مرورِ زمانہ کا ساتھ دے سکیں۔‘‘(بد لتے حالات ...ص۴۴)
(۵)جناب سید سلمان حسینی ندوی او ر نصاب تعلیم
کچھ جناب سید سلمان حسینی ندوی کی کتاب ’’ ہما را نصاب تعلیم کیا ہو؟‘‘اور بعض خطاب سے متعلق عرض کرنا ضروری ہے؛کیوں کہ یہ عہدِ حاضر میں اہل زیغ کی طرف سے ریفارمیشن کے حوالہ سے خلط و التباس پیدا کرنے والی ایک نمائندہ آواز ہے۔اِسی کے تجزیہ و تنقید سے امید ہے کے اِس باب میں ماضی و حال تمام پیدا شدہ اور آئندہ پیدا ہونے والے خلجانات اور ظاہر کیے جانے وا لے فکری التباسات رفع ہو جا ئیں گے۔ موصوف نے علماء کے لیے عصری تعلیم کی ضرورت پر حجت تمام کرنے کے واسطے کتاب مذکور کے ص۸۱پر یہ لکھ دیا کہ :
(۱)’’مسلمان کسی دور میں بھی عصری علوم سے بے گانہ نہیں رہے۔‘‘
لیکن موصوف کو جس بات کی شکایت ہے،اُس کے لیے یہ تاریخی استشہاد درست نہیں؛کیوں کہ مسلمان اب بھی کہاںبے گانے ہیں۔سر سید کے ذریعہ مدرسۃ العلوم کے حوالہ سے کیا گیا سارا کام کس چیز کو ظاہر کرتا ہے۔پھر علی گڑھ پر انہوں نے یہ بے تحقیق تبصرہ کر دیا کہ وہاں سے کوئی سائنس داں پیدا نہیں ہوا۔حالاں کہ خود علی گڑھ اور علی گڑھ کی فکر پرپیدا ہونے والے مسلم سائنس دانوں کی ایک فہرست دی جا سکتی ہے جنہوں نے نئی دریافتیں کی ہیں اور اہم دریافتوں اور ایجادات میں موثر رول ادا کیا ہے۔ البتہ اِس بات کا کہ’’مسلمان کسی دور میں بھی عصری علوم سے بے گانہ نہیں رہے۔‘‘ تحقیقی جواب جاننے کے لیے ملاحظہ ہو محقق معاویہ سلمہ متخصص فی الحدیث ومدرس مظاہر علوم سہارنپور کا مضمون’’ہمارا نصابِ تعلیم‘‘
(۲)مزید لکھتے ہیں:’’وہ ہر ضروری علم کو حاصل کرنے کی جد و جہد کرتے رہے،اور اُس کے مضر اثرات سے بھی بچنے کی فکر کرتے رہے۔‘‘(ص۸۱)
یہی اب بھی ہو نا چاہیے،علی گڑھ کی تحریک اور اُسی کی آواز میں آواز ملاکر اٹھنے والی ندوہ ،دونوں کو اب بھی یہی کرنا چا ہیے،کہ دین کے تحفظ کے لیے عقلی علوم حاصل کریں ۔عصری فنون سے غرض طلبِ جاہ نہ ہو،دین میں تاویل و تحریف نہ ہو،فاسد مغربی اصولوں کی تائید نہ ہو۔اور اگر ندوہ نے یہ محسوس کر لیا ہے کہ علی گڑھ نے اِن ترجیحات کے باب میں غفلت برتی ہے،تو خود اُسے اِن چیزوں کی طرف توجہ کر نی چاہیے۔
(۳)’’ابتدا میں علماء نے اگر کسی علم سے متعلق منفی رویہ اختیار کیا،تو اُس کے مضر اثرات کے غالب پہلو کی بنیاد پر کیا؛لیکن بعد میں اُن ہی کے
شاگردوںاور ماننے وا لوں نے اس علم کو ضروری سمجھا۔امام شافعی نے ’’علم کلام‘‘سے دور رہنے کی تا کید کی،اور اُس کے پڑھنے کی ممانعت کی؛
لیکن امام ابو الحسن اشعری شا فعیؒ سے لے کر امام غزالی،امام نووی اور ابن حجر اور تمام علمائے شوافع نے اس کو ایک ضرورت اور وقت کا تقاضہ سمجھا اور اس
کے بغیر دین کی حفاظت پر اندیشہ ظاہر کیا۔‘‘(ص۸۱)
مولف سلما ن حسینی صاحب نے یہاں التباس پیدا کیا ہے۔جس بنیاد پرحضرت امام شافعیؒ نے علم کلام سے دور رہنے کی تاکید کی تھی وہ علت جب بھی پائی جائے گی، حکم وہی رہے گا،یعنی اعمال میں ضعف،اور علم کلام کے مسائل میں غلو و انہماک اور علم کلام میںایسے مسائل کا اضافہ جن کے جواب پر وہ شرعاً مضطر نہ ہوں۔اور جو جواب منع کے درجہ میں ہوں انہیں ضروری اور قطعی حیثیت دینا وغیرہ ،یہ وہ امور تھے جس کی وجہ سے امام شافعی نے روکا تھا،اور