مثال(۱)معاشرتی امراض(Social diseases):شادی غمی اور سوا اِن کے اور معاملات میں ایسی ایسی رسوم و قیود کے پابند ہیں کہ خود اُن کے نقصانوں کے دل و جان سے مقر ہیں اور پھر(بھی بچنے کی فکر نہیں؛بلکہ۔ف) اُن پر مصر ہیں۔
------------------------------
حاشیہ(۱)تپِ دق پہلے تو بہت ہی مشکل سمجھا جا تا تھا،لیکن اب گو جراثیم کش ادویہ دریافت ہو جا نے سے اختباری تفتیشات ،hypersensitivity test او ر شعاعِ مجہول(x-ray) کے ذریعہ اِس کی تشخیص ہو جا نے کے بعد علاج آسان ہو گیا ہے ،لیکن A.I.D.S.کے مریضوں میں اِس کے جراثیم موقع پرست بیکٹیریا(Apportunistic bacteria) کی شکل میں ترقی یافتہ ممالک کے مریضوں میں بھی موجود رہتے ہیں،لیکن عمر بھر T.B.کی تشخیص نہیں ہو پاتی ۔مریض کی موت کے بعد Autopsyکے ذریعے معلوم ہو پاتا ہے کہ ، اسے tuberculosisکا مرض تھا۔
علی ہذا القیاس،ہر فرقہ ایک جدا ہی عقائد پر دل جما ئے ہو ئے بیٹھا ہے۔سو(دنیا)جہاں کے سارے فرقوں میں سے اگر کسی کوحق پرقرار دیں،تب بھی اکثر لوگ باطل ہی پر نکلیں گے،اسی طرح ہر قوم کی بعضی عادت ایسی خلافِ عقل ہیں کہ اُن کے خلافِ عقل ہو نے میں کسی کو خلاف نہیں(سب متفق ہیں،نہ کسی کو تامل،نہ اِختلاف۔ف) (۱۵۰)
مثال(۲):نسلوں اور قوموں کے امراض
(Region&Sect):ہندوستان کے رانگھڑ،گوجر اور افغانستان کے کو ہستا نیوں اور عرب کے بدؤوں میں چو ری،قزاقی اِس درجے کو مروج ہو ئی ہے کہ رواج کی رو سے موجبِ طعن و تشنیع نہیں۔
مثال(۳)امراض پیشہ(Occupation):رنڈیوں کی قوم میں زنا کی یہ ترقی ہو ئی ہے کہ معیوب ہو نا تو در کنار،اُس کو اپنا ہنر سمجھتی ہیں۔
مثال(۴)امراضِ عادات(Habbitual diseases) :بعض قوموں میں شراب خوری اور بے پردگی اور بے ناموسی کی یہ نوبت پہنچی ہے کہ اِس کے باعث سینکڑوں رنجِ پنہانی اُٹھا تے ہیں ،پر زبان پر نہیں لا تے۔
مثال(۵)موروثی(Heriditary):بنیوں میں بخل اور بزدلی اِس حد کو پہنچی ہے کہ حدّ و حساب نہیں۔
الغرض،کہاں تک گنا ئیے!’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘عاقلوں کو اِتنا بھی پتہ بہت ہے۔غا فلوں کا ہزاروں داستان سن کر بھی کان گرم نہ ہو گا۔اِسی طرح پہلے زما نوں کا حال سنتے ہیں کہ کوئی قوم کسی بلا میں مبتلا تھی اور کوئی فرقہ کسی فساد کی باتوں میں پھنسا ہوا تھا ۔
اور بایں ہمہ ایک زمانۂ دراز کے بعد عالم کا رنگ باعتبار عادتِ بد کے کچھ ایسابدل جا یا کرتا ہے،جیسے نواحِ سہارنپور کی آب و ہوا بہ نسبت سابق کے بدل کر ایسی ہو گئی ہے کہ(وہاں سہارنپور میں۔ف)اب اکثر وہ امراض پیدا ہو تے ہیں جو کبھی پہاڑیوں (پہاڑ کے رہنے وا لوں )میں سنا کرتے تھے۔اور پہاڑ کی آب و ہوا اب وہ خوش آئند ہے کہ اور لوگ اگر مول ملے،تولے جا ئیں۔مشہور ہے کہ تیرہویں صدی سے پیشتر جو خوبیاں تھیں،اب نہ رہیں۔اور جو برا ئیاں نہ تھیں،اب دیکھنی پڑیں۔‘‘(۱۵۰)
تبدیلیٔ زمانہ سے احوال و احکام میں تبدیلی
’’القصہ،بلحاظ وجوہِ مذکورہ عجب نہیں کہ طبِ روحا نی کی رو سے ہر زمانہ میں ایک جدا نسخہ تجویز کیا جا ئے۔یا ہر قوم کو ایک جدا معجون دی جا ئے۔(۱۵۱)تو یہ اِختلافِ ادیان،عبادات میں ہو یا معاملات میں بشرطِ آسمانی ہو نے اُن ادیان کے،عجب نہیں کہ اِس (تبدیلیٔ اَزمان و تغیُّرِ احوال کی)وجہ سے ہو ۔اورکچھ دور(وبعید)نہیں کہ کسی زمانے کے چند احکام دوسرے زما نے میں موقوف کیے جا ئیں۔اور اُن کے بدلے اور حکم دیے جا ئیں۔(مسئلہ نسخِ احکام بھی یہیں سے حل ہو جا تا ہے،جس پر غیر وں کا تو کیا ذکر اسلام کے مبتدعین بھی شور مچا یا کرتے ہیں۔دیکھئے پرو فیسر راشد شاز کی کتاب اِدراکِ زوالِ امت’تعبیرات کے حصار میں )
اب بات کہیں کی کہیں جا پڑی ۔اعمال کے حسن و قبح اور اُن کی بھلا ئی برائی کے ثابت کرنے میں اِس کج بیان کی تقریر یہ غلطاں و پیچاں ہو ئی کہ مطلب سے کو سوں دور جا پڑا۔ مگر الحمد للّہ کہ خدا ئے کریم نے اپنے افضال سے بڑے بڑے مطالبِ عالی حل کرا دیے۔ ا ب پھر بر سرِ مطلب آتا ہوں اور ایک دو اور دلیلیں