(۲) اُن کو اِس جانب اِلتفات نہ ہو سکاہو کہ موجودہ سائنسی مسائل جن اصولوں پر مبنی ہیں،وہ کیا ہیں؟،اور اُن میں اِلتباسِ فکری کی نوعیتیں کیا ہیں؟اور
(۳) اُن فکری التباسات پر امامین (امام محمد قاسم نانوتویؒ اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ)کی تحریروں میں کس قسم کی بحثیں کی گئی ہیں۔
اور یہ بحثیں دور حاضر کی عین ضرورت ہیںدرج ذیل شہادتیں،اِن تخمینوں کی مزید توثیق کرتی ہیں:
(۱لف)امام نانو تویؒ کی تحریروں کے متعلق تو اُنہوں نے یہ لکھ دیا تھا کہ حضرت نانوتویؒ کیا علوم پیش کرتے ہیں،کس قسم کے مسئلے حل کرتے ہیں،اگر اُن کی چیزیں کچھ ضائع ہو گئی ہیں،تو پہلے بھی متعدد بزرگوں کی چیزیں ضائع ہوئی ہیں،اور جو ہیں وہ بھی قابو سے باہر ہیں۔....حفاظت کی چیز صرف قرآن اور حدیث ہیں۔اور
(ب)خود اُنہوں نے یہ اعتراف کیا کہ تصفیۃالعقائد کی شرح لکھنی چاہی تھی،کچھ لکھ بھی لی تھی؛لیکن طبیعت چلی نہیں۔(قطعی الفاظ مجھے یاد نہیں۔استناد کے لیے ملاحظہ ہو:’’ حدیثِ دوستاں‘‘)
اور حضرت تھانویؒ کی وہ کتابیں جو اِس باب میں اِنقلابی حیثیت کی حامل ہیں،جن کاذکر ہم متعدد مرتبہ کر چکے ہیں،مولانا کی تحریروں سے اندازہ ہو تا ہے کہ اُن مباحث سے اُن کو مناسبت نہیں تھی،اس لیے اگر وہ کتابیں نظر سے گزری بھی ہوں،تو اُس حیثیت سے اُن کی وہ اہمیت روشن نہ ہوئی ہوگی،جیسی کہ وہ ہیں۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ کتابیں نظر سے گزری ہی نہ ہوں یا اُن مسائل کا اُس حیثیت سے استحضار نہ ہو سکا ہوجن کا اُن کتابوں میں جواب ہے ،اس لیے دفع دخلِ مقدر کی عقدہ کشائی کے بغیر وہ کتابیں حکیمِ امت کی حکمت و قابلیت کا روشن پیغام چھوڑ سکنے میں تو کامیاب ہوئیں ؛لیکن میبذی و شرحِ عقائد کی اہمیت بتلا پا نے میں نا کام رہیں۔
ع=وائے نا کامی ......دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
تشویش دہ صورتِ حال:
اور اب فی زمانہ عام طور پر صورتِ حال وہی پیدا ہو گئی ہے جو منطقی نتیجہ کے طور پر ہو نی چا ہیے تھی۔ یعنی میبذی اور شرحِ عقائد کا اِطلاقی پہلو مفقود ہونے کے بعد وہ حا لتِ منتظرہ آکر رہی جس کے لیے بعض بزرگوں کے اقوال کا سہارامدت سے لگا یاجا رہا ہے۔ ان بزرگوں کا سہارا لے کر پہلے یہ چند کتابیں نصاب سے خارج کی جائیں گی،پھردوسرے مرحلے میں کچھ چیزیں داخل کی جائیں گی یعنی علوم جدیدہ،ادب،تاریخ اور سائنس ۔تیسرا مرحلہ فکر پر براہِ راست حملہ کا ہوگا،اِس مرحلہ میں ’’وحدتِ علم‘‘ کا تصور جاری کیا جا ئے گا۔بعض ایک مرحلہ طے کر چکے ہیں،بعض،دو اور بعض تینوں۔اورمحسوس یہ ہوتا ہے کہ جن بزرگوں کا سہارا لیا جا تا ہے،اُن کی طرف منسوب تیسری جنریشن(پشت)کے اکثر افرادتینوں مرحلے عبور کر چکے ہیں۔
اب اِس کے بعد اُن حاملینِ درسیات کی بڑی قدر محسوس ہوتی ہے کہ اِن تمام نا مصاعد حالات میں نصاب کے حوالہ سے اصل فنون سے شغف
باقی رکھے ہوئے ہیں،اور اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا فریضہ ،بے لوث ،بے معاوضہ،تمام زمانہ کے حملوں،اورابنائے زمانہ کی طرف سے اذیت ناک امور کی سہار کرکے بھی انجام دیے چلے جا رہے ہیں۔یہ اندھی تقلید نہیں ہے؛بلکہ اسلام پر بیرونی حملوں سے حفاظت کے اصولی پہلؤں کا تحفظ ہے۔ لیکن اگر فلسفہ کا اِطلاقی پہلو سمجھنے ،اور سمجھانے وا لے نہ ہوں گے،تو پھر کیا ہو گا؟اِ س کی افادیت تو اُسی وقت تھی کہ جب:
’’معلم(مخالف عقائد۔ف)کے اِظہارِ بطلان پر قادر ہو اور متعلم دلائلِ اِبطال کے سمجھنے کی لیاقت رکھتا ہو،‘‘(حضرت نانوتویؒ)
اُس وقت حضرت نانوتویؒ کے ارشاد کے بموجب: ’’ بے شک تحصیلِ علوم مذکورہ (معقولات و فلسفہ۔ف)داخلِ مثوبات و حسنات ہو گی۔}‘‘
لیکن نوبت جب اُس درجہ کو پہنچ جا ئے جس کا اوپر ذکر ہوا،تو پھر خدائے تعالی ہی اپنے دین کے محافظ ہیں۔جس سے چاہیں اور جیسے چاہیں خدمت لیں۔
قول صائب : مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ ا ﷲ کی آپ بیتی