قدر نہیں،کوئی روح،کوئی خدا نہیں؛اس لیے کوئی مذہب بھی نہیں۔‘‘(انٹرنیٹ:ہسٹری آف فلاسفی)
حقیقت پسندی:
اسی نیچریت کی ایک شاخ حقیقت پسندی ہے ۔ حقیقت پسندی(Realism)ایک اصطلاح؛بلکہ ایک فن ہے جس کا تعلق ناول نگاری ،ڈرامہ نویسی سے ہے۔نشأۃ ثانیہ سے ہی اِس فن نے معاشرہ میں اعتبار حاصل کر لیا تھا؛لیکن ۱۹ویں صدی میں ہنرک اِبسن(Henrik Ibsen۔۱۸۲۸تا ۱۹۰۶)نے اِس فن کو انتہا پر پہنچا دیا۔تحریکِ آزادیٔ نسواں کی چنگاری بھڑکانے میں ،اِس کابڑا اہم رول ہے۔یہ شیکسپیر کے بعد سب سے بڑا ناول نگار اور ڈرامہ نویس ہے۔ناول نگاری،ڈرامہ نویسی اور تھیٹر کے حوالہ سے،اسے حقیقت پسندی کا بانی( father of realism ) کہا جا تا ہے ۔(انٹرنیٹ:نیچرلزم) شیکسپیر،اسٹیل ،ایڈیسن،روسو،والٹیر،وررڈزورتھ وغیرہ کی نیچریت اور اِن کے جاری کیے ہوئے اُسلوب اور اصول سرسید حالی،شبلی،شرر،مہدی الافادی،سجاد حیدر یلدرم اور عبد الغفار کی تحریروں میں جاری ساری ہیں۔ اگر آپ اِس کے محرک اور سبب کی تلاش کریں،تو واقعہ یہ ہے کہ مادیت(Naturalism)،عقلیت(Rationalism)کے مغربی تصورات کے جو لوگ اسیر ہوئے،اُنہیں اُس ادب کے ساتھ بھی رغبت پیدا ہوگئی جس میں ناول کا سا طرز ہو۔کیوں کہ مغربی معاشرہ کی صورتِ حال یہ تھی کہ سائنسی نقطۂ نظر سے : ’’جیسے جیسے کائنات کا تصور زیادہ واضح اور روشن ہوتا جاتا ،ویسے ویسے کو ئی ایسی چیز جو جذبات اور امنگوں کو سہارا دے سکے،کمیاب ہوتی چلی جا تی تھی۔جو لوگ کسی زیادہ یا شدید تجربے کے متلاشی تھے،اُنہیں یہ تجربہ خیال آرائی(Fiction)میں ہی مل سکتا تھا،چوں کہ وہ اُسے اِس دنیا میں پا نے سے محروم تھے،لہذاس طرح ادب کی ایک نئی صنف یعنی ناول نگاری کی بنیاد پڑی اور اُسے فروغ ہوا۔ ‘‘(دیکھیے نظریۂ فطرت ص ۲۰۰تا۲۰۲) پھر اسی نیچرلزم سے یہ افکار پیدا ہوئے:
فطری مذہب کا تصور:
اِس خیال کے تحت یہ باور کیا گیا مذہب کی بنیاد آسان ، سادہ اور قانونِ قدرت کے ابتدا ئی اصولوں پر مبنی ہو نی چا ہیے۔یعنی مذہب کے اصولوں کو انسان اپنی غبار خواہش میں آلودعقل پراورظواہر فطرت پر پرکھ کر طے کرے گا کہ یہ اصول نیچر کے موافق ہیں یا نہیں۔
افادیت پسندی(Utility):
صحیفۂ فطرت سے ماخوذ اخلاقی اصولوں کے تحت افادیت کے نظریہ کا بانی جرمی بینتھم (Geremy Bentham۔۱۷۴۸تا ۱۸۳۲ء) تھا۔اِسی نے اپنی کتاب ’’دستور سازی اور اخلاق کے اصول‘‘(The Principles of Moral and Legislation-۱۷۸۰ء)میں اِفادیت(Utilitarianism)کاتصور گو پہلے سے چلا آرہا تھا؛لیکن اس کا فارمولا سب سے پہلے اسی نے ظاہر کیا ہے۔جان اسٹیورٹ مل،رابرٹ اووین اور جان آسٹن نے اِس کے کام کو شہرت دی۔مقصود کی حصول یابی کے لیے مذہبی خیالات کی اصلاح کے حوالہ سے اِس نے چار چیزوں کو اہمیت کے ساتھ پیش کیا:(۱)مساواتِ مرد و زن(Equal right for women)(۲)عورتوں کو بھی طلاق دینے کا اختیار(Right to divorce)(۳)بطلانِ اِسترقاق یعنی غلامی کو ظلم بتا کر اُسے باطل قرار دینا(Abolition of stavery)(۴)فعلِ ہم جنسی کے مذموم ہونے اور جرم ہونے کی ،مخالفت(Decriminalization of Homosexuality)
حیاتیاتی نیچریت،بقائے اصلح:
بقائے اصلح در حقیقت حیاتیاتی نیچریت کا سائنسی رجحان ہے۔اس سائنسی رجحان کا فلسفہ یہ ہے کہ ہر مخلوق کو زندہ رہنے کی لگن ہے،اور وہ اپنے وجود کے لیے کوشاں ہے۔اور اپنے وجود کے لیے کوشاں رہنے والے باقی رہتے(surviveکر جاتے )ہیں ۔اسی کو بقائے اصلح(survival of the fittest