Deobandi Books

الامام محمد قاسم النانوتوی کی فکر اور بدلتے حالات میں مدارس کی تر جیحات

85 - 104
علومِ عالیہ کے لیے علومِ آلیہ کی ضرورت ہے
’’قرآن،فقہ و احادیث کا سمجھنا منطق کے بغیر مشکل ہے اس لیے منطق پڑھنی ضروری ہے۔...اوامر و نواہی کا سمجھنا تو آسان ہے؛لیکن 
استنباطِ مسائل اور تحقیق کے لحاظ سے قرآن کا سمجھنا بدوں منطق اور علوم آلیہ کے دشوار ہے ۔اس لیے علومِ عالیہ کے لیے علومِ آلیہ کی ضرورت ہے۔‘‘
دور جدید میں جن حضرات سے دین کو نفع ہوا،وہ معقول ہی کی بدولت ہوا
’’اِس اخیر زمانہ میں جن حضرات سے دین کو نفع ہوا،وہ معقول ہی کی بدولت ہوا،انہوں نے معقول کو منقول کر کے دکھلا دیا تاکہ اغبیاء کی سمجھ 
میں آجا ئے۔ مولانا یعقوب صاحب فرما تے تھے کہ میں جس طرح مطالعۂ بخاری کو موجبِ اجر سمجھتا ہوں،اُسی طرح میر زاہد اور امورعامہ کو؛
کیوں کہ مقصود اِن کا اچھا تھا۔‘‘(ملفوظات حکیم الامت ج۱۵ ملفوظات اطہر ص۶۹)  
اورپھر بعد ہی میں یہ بھی پتہ چلا کہ ہمارے اِن اکابر نے ہی فلسفہ کے مغالطوں کو دور کیا ہے (اِس کی تصدیق کے لیے ملاحظہ ہو تقریر دل پذیر اور قبل نما میں بحث ’’مکان‘‘،بحث قوانین فطرت ،التقصیر،الانتباہات،بیان القرآن،ملفوظات و مواعظ، و تصانیف کثیرہ از حکیم الامت وغیرہ‘‘مثلاً)منطق اور علوم عقلیہ کی پیچیدگیوں کو حل کیا ہے اور یہ بتلایا ہے کہ علوم تو اہلِ حق کے ہوتے ہیں:
’’علوم تو اہلِ حق کے ہوتے ہیں۔باقی منطقیوں کے یہاں تو لفظی چکر ہوتے ہیں۔اُن سے کلامی ہذا کاذب کا حل نہیں ہوتا۔یہ نہیں سمجھتے کہ
 احتمالِ صدق و کذب اُس کلام میں ہو تا ہے جو محاورات میں بولے جاتے ہیں،یہ تو گھڑی ہوئی مثال ہے۔اسی طرح ایک اِشکال اور کیا گیا 
ہے،وہ یہ کہ موجود دو قسم پر ہے:موجود فی الخارج اور موجوڈ فی الذہن۔اور یہ دونوں مسلم ہیں۔پھر شبہہ یہ ہوا کہ ذہن خارج میں ہے،تو موجود 
فی الذہن بھی موجود فی الخارج ہوا؛گو بواسطہ ذہن کے ہیں،تو قسیم قسم بن گیا۔جواب یہ ہے کہ موجود فی الخارج جو جو قسیم ہے موجود فی الذہن کی
 جو(وجود کے لحاظ سے ۔ف)موجود فی الخارج ہے،وہ بواسطہ ذہن کے ہے؛اس لیے یہ موجود فی الخارج نہ ہوگا۔منطقی صرف الفاظ کی پرستش 
کرتے ہیں،اور کچھ نہیں۔‘‘(ملفوظ ج۴ ۱’’کلمۃ الحق ص۹۴،۹۵‘‘)
پھر نظر جب منتشر ہوئی اور متعدد افکار و نظریات کے مطالعہ سے سابقہ پیش آیا،توآنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔معلوم یہ ہوا کہ معقولات کی مخالفت کرنے وا لوں میں سے علومِ مغربیہ کا سایہ جس کسی پر پڑا ،اُس نے چھوٹتے ہی تقدیر پر اعتراض کیا اور اُس کی تفسیر بدلنے کی کوشش کی۔عقل و نقل کی ترجیحات کے اصولوں میں مغالطہ دیا۔خلافِ عادت اور خلافِ عقل،خرقِ عادت اور قا نون فطرت کی تشریح میں مغالطہ دیا۔معجزہ کی حقیقت میں خلط سے کام لیا۔معجزہ کو دلیل نبوت ماننے سے انکار کیا،عادۃ اﷲ اور صحیفۂ فطرت کو وعدۂ فعلی قرار دینے اورکلام اﷲ کو وعدۂ قولی باور کرانے میں اور اِن دونوں کی تشریح میں التباس فکری سے کام لیا۔سائنس کے مسائل کوقرآن کے ساتھ تطبیق دینے کے باب میں عقلی اصولوں کی خلاف ورزی کی۔سا ئنس سے مرعوبیت کے نتیجہ میں،اہل سائنس کی اتباع کی اور اسباب طبعیہ میں سبب کا انحصار قرار دے کر آیتوں کے ظاہر معنی کو ترک کیا ۔بے ضرورت تاویل کر کے تفسیر کے اصولوں کو اور عقلی اصولوں کو پامال کیا۔معاملات و سیاسات کے جزوِ شریعت ہو نے کا انکار کیا ۔ حضرت تھانویؒ کے الفاظ میں:
 ’’معاملات وسیاسات کے جزوشریعت یا شریعت دائمہ نہ ہونے کا اس سے شبہہ ہوگیا ہوکہ ہم بعض احکام کو مضر تمدن دیکھتے ہیں پس یا تو 
وہ احکامِ الٰہیہ نہیں ہیں یا اس زمانے کے ساتھ خاص ہوں گے۔ اس کا حل انتباہِ سوم میںبضمن تقریر شبہہ متعلق غلطی پنجم مذکورہوچکا ہے 
پس ہم کواس کی بھی ضرورت نہیں کہ ان احکام کو زبردستی مصالح موہومہ پر منطبق کرکے آیات واحادیث کے غلط معنی گھڑیں اور احکام کو 
ان کی اصلیت سے بدلیں، جیسامدعیان خیرخواہی اسلام کی عادت ہوگئی ہے کہ مبانی اعتراض پر مطالبۂ دلیل کوبے ادبی سمجھ کر اعتراض کو
تسلیم کرکے خود حکم معترض علیہ کو فہرست احکام سے نکال کر اس کی جگہ دوسرا حکم محرَّف بھرتی کرکے اس مضمون کے مصداق بنتے ہیں 
{وَاِنَّ مِنْہُمْ لَفَرِیْقاً یَلْوُوْنَ اِلٰی قَوْلِہِ وَہُمْ ْیَعْلَمُوْنَ}(اوربے شک ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ کج کرتے ہیں اپنی زبانوں کو 
کتاب پڑھنے )میں (یعنی اس میں کوئی لفظ یا تفسیرغلط ملادیتے ہیں۔تاکہ تم لو گ اس کو کتاب کا جز سمجھو حالانکہ وہ کتاب کا جز نہیں اور

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 فہرست مضامین 3 1
3 باب-۱=ام المدارس دار العلوم دیوبند کے موسسین کا امتیازی وصف اور اُن کے مقاصد عالیہ 7 1
4 باب-۲=نیچریت (Naturalism) 10 1
5 باب-۳=فکر دیو بند،تحریک علی گڑھ اورتشکیلِ ندوہ 18 1
6 باب-۴=نصابِ تعلیم 28 1
7 باب۵=معقولات کے داخلِ درس ہونے پر اعتراضات 38 1
8 باب ۶=چند دیگرمفکرین 54 1
9 باب۷=نصاب تعلیم کے حوالہ سے بعض درد مندوں کے اِضطرابات 58 1
12 باب-۸=دیوبند میں حضرت نا نوتویؒ کے رائج کردہ نصا بِ تعلیم پر ایک نظر(اشارات) 61 1
13 باب۹=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت:افکار جدیدہ کے تناظر میں 65 1
14 باب۱۰=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت(اشارات) از. الامام محمد قاسم نا نوتویؒ 70 1
15 باب ۱۱=معقولات اور فلسفہ کی تعلیم اورزمانۂ حال کے اربابِ درس کا اضطراب 75 1
16 باب ۱۲=عصر حاضر میں معقولات و فلسفہ کی شدید ضرورت 78 1
17 باب ۱۳=اصولِ قاسم اور اہلِ مدارس کے تحفظات 79 1
18 باب ۱۴=درسی کتابوں کا طریقۂ تدریس از۔ حکیم الامت مولا نا اشرف علی تھانوی 80 1
19 باب ۱۵=معقولات و فلسفہ کا اِطلاقی پہلو 83 1
20 باب -۱۶= اہل علم کی خدمت میں 88 1
21 باب ۱۷=علوم جدیدہ کا پیدا کردہ مسئلۂ خیر و شر 91 1
25 الف =نیچریت کا پس منظر 10 4
27 ’’انسانیت(Humanism)‘‘ کی حقیقت 10 4
28 ۲-ب= نیچریت کا مفہوم و مصداق اور متعدد شکلیں 12 4
29 حقیقت پسندی (Realism) 13 4
31 افادیت پسندی(Utility) 13 4
32 ندوہ کا منشور 19 5
34 التباساتِ فہد 20 5
35 (۱)مصلحین امت کی تعیین میں خلط 20 5
36 (۲)فاسد اصولوں کے انتساب میں تلبیس 20 5
37 (۳)اعتقادی اجزاء میں خلط و تلبیس 20 5
38 (۴)شعور سر سید کی وضاحت میں تلبیس 21 5
39 (۵)شعورقاسم کے تعارف میں خیانت 22 5
40 استدراک 22 5
41 ناظمِ دینیات کے فرائض مقرر کردہ سرسید احمد خاں 22 5
42 سرسید کی رواداری کا اصل منشا 22 5
43 مدرسۃ العلوم میں دینیات کی تعلیم اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ 23 5
44 مدرسۃ العلوم کی بنیاد اورحضرت مو لانا رشید احمد گنگو ہی،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کو شرکت کی دعوت 24 5
45 سر سید کے قاصد اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کی گفتگو 25 5
46 قاصد کا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کو مشورہ اور حضرتؒ کا جواب 25 5
47 یہ جواب کوئی عارف ہی دے سکتا تھا 25 5
48 دو شعور= شعور قاسم اورشعور سر سید 25 5
49 ۴ -جزئ اول=ادب،تاریخ ، اور مغربی عقلیت 29 6
50 ۴ -الف=ادب 29 6
51 ۴-ج=مغربی عقلیت 33 6
52 ۴-جزئِ دوم =تاریخ، ادب و عقلیت میں مغربی اصولوں کی تقلید کرنے والے چند اہم مفکرین 34 6
53 (۱) خواجہ الطاف حسین حالی 34 6
54 (۲)شمس العلماء شبلی نعمانی 35 6
55 (۳)محقق عبد الماجد دریابادی 35 6
57 (۱)سر سید(۲)علامہ شبلی 38 7
58 (۳)نصابِ تعلیم اورعلامہ سید سلیمان ندویؒ 39 7
59 (۴)نصابِ تعلیم اور جناب ابو الکلام آزاد 39 7
60 (۵)جناب سید سلمان حسینی ندوی او ر نصاب تعلیم 40 7
61 اضطرابات سلمان حسینی بشکلِ التباسِ فکری 42 7
73 مدیر ’’ الشریعۃ‘‘ 54 8
74 (۲)منتسبینِ قاسم 54 8
75 (۱)مولانا عبد العلی فاروقی لکھنوی زید مجدہ ۔ مدیر البدر 58 9
76 (۲)جناب ندیم الواجدی صاحب -مدیر ترجمانِ دیو بند 59 9
77 دیوبند میں ’’مروجہ نصابِ تعلیم‘‘ کی تجویز اور اس کی حکمت: 62 12
78 نصابِ درس کی خوبیاں 63 12
79 نصابِ درس کے وہ اہم امور جن پر سب سے زیادہ غم و غصہ ہے 64 12
80 جدید فلاسفی کی شاخیں اور جدید فلاسفرز 66 13
81 تحلیلی فلاسفی( Analytic philosophy) اور معروضی فلاسفی (Objectivism) 67 13
82 معروضی مطالعہ کی ترجیح-ایک لمحۂ فکریہ 68 13
83 این المفر =منطق سے فرارممکن نہیں 68 13
84 کیا منطق اور فلسفہ سے شغف رکھنے والے علوم نقلیہ سے بے زار ہو جاتے ہیں؟ 72 14
85 کیا اکابر سے منطق اور معقولات کی مذمت منقول ہے؟ 72 14
86 فلسفہ اور معقولات میں ا کابر وسلف کی مہارت 73 14
87 اضطراب اعجازی کی توجیہ 75 15
88 قول صائب : مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ ا ﷲ کی آپ بیتی 76 15
89 (الامام محمد قاسم النانوتوی اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے کلام کی روشنی میں) 78 16
90 (جامع معقول و منقول مولانا ریاست علی ظفر بجنوری مد ظلہ کی تنبیات کی روشنی میں ) 79 17
91 حلِّ مطالب پر اِکتفا کرنا چا ہیے،غیر ضروری تقریر مناسب نہیں 81 18
92 استاذ کے لیے بات کی پَچ مناسب نہیں 81 18
93 مولانا یعقوب صاحب رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
94 حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
95 محققین اکابررحمۃ ا ﷲ علیہم کے درس کی خصوصیت 82 18
96 استاذ کے لیے قابلِ لحاظ امر 82 18
97 اِستعداد کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ 82 18
98 اِستعداد کے موانع 82 18
99 زبان کھل جائے،بولنے کا عادی ہو جائے،اِس کا انتظام 82 18
100 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۱) 83 19
101 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۲) 83 19
102 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۳) 84 19
103 منطق کے بغیر آدمی درسیات پڑھا نہیں سکتا (حضرۃالاستاذعارف با ا ﷲ مولانا صدیق احمد صاحب رحمہ ا ﷲ ) 84 19
104 آپ بیتی: از مولف -فخر الاسلام 84 19
105 علومِ عالیہ کے لیے علومِ آلیہ کی ضرورت ہے 85 19
106 دور جدید میں جن حضرات سے دین کو نفع ہوا،وہ معقول ہی کی بدولت ہوا 85 19
107 مدارس کو اصول صحیحہ سے سروکار ہے ،محض جدید کا رعب کافی نہیں 86 19
108 نصابِ قدیم وجدید کی آویزش کا نتیجہ 87 19
109 خرابی کااصل سبب بزرگوں کے طریق سے بے نیازی 87 19
110 ۱۶-الف=گفتگوکا سرسری جا ئزہ (تلخیص) 88 20
111 ۱۶-ب=مشورے ، گزارشیں اور تجویزیں 89 20
112 (۱)اسلام پر پڑنے والے شبہات کے ازالہ کے لیے تجویز 89 20
113 (۲)چند مسئلوں کو جانچنے کی تجویز 90 20
114 ۱۷-الف= عقلی استدلال 91 21
115 ۱۷-ب=خیر و شر،بھلائی-برائی کا اصول اہلِ مغرب کی نظر میں 91 21
116 ۱۷-ج=خیر و شر،بھلائی-برائی کا معیار از الامام محمد قاسم النانوتویؒ 92 21
117 خیر و شر کا محسوساتی معیار: 92 21
118 خیر و شر کا عقلی معیار 92 21
119 اصول:۱=’’عقل موجدِ معلومات نہیں مخبر معلومات ہے‘‘ 93 21
120 باریک فرق معلوم کرنے کا مسئلہ،اور عقل کے التباسات 93 21
121 اصول:۲=جو چیز مطلوبِ اہم اور اور مقصودِ اعظم ہو تی ہے،اُسی پر بھلائی،برا ئی کا اِنحصار ہو تا ہے 94 21
122 نیک و بد،بھلا،برا ،خیر و شرکے ا طلاقات 94 21
123 جس بات پر انسان کی بھلائی برائی موقوف ہے،اُس کے دریافت کرنے کا طریقہ: 94 21
124 اصول:۳=انسان کا مقصودِ اہم اور مطلبِ اعظم نفع کے کام کر نا اور نقصان کے کا موں سے بچنا ہے 94 21
125 انسان کے اجزاء ترکیبیہ 95 21
126 نتیجۂ بحث:بعضے کام بھلے اور بعضے برے یقیناً ہیں 95 21
127 اصول:۴=عقل اور قوتِ عمل میں رابطہ حاکم اور محکوم کا ہے ۔قوتِ عمل عقل کے لئے وہی درجہ رکھتی ہے جو قلم کاتب کے لئے 95 21
128 اصول:۵=جو چیز کسی کے حق میں خدا نے اول سے نافع پیدا کی ہے،وہ اُس کی رغبتِ طبع ہو تی 96 21
129 رغبت کی مثال 97 21
130 نفر ت کی مثال 97 21
131 اصولِ فطرت کی حقیقت اور عقلِ سلیم 97 21
132 کامل العقل کی اہمیت اور ضرورت 97 21
133 اصول:۶= کامل طبیبِ روحانی کے نسخہ میں کمی بیشی جائز نہیں 98 21
134 اِس بات کو یاد رکھنا چا ہیے کہ بہت کارآمد ہے 98 21
135 اصول:۷= کوئی طبیبِ روحانی اگر ایسی بات بتلائے کہ اُس کا ہو نا بہت سے 98 21
136 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔اصول:۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
137 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔ 98 21
138 ۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
139 اصول:۱۰=دینِ حق کے کر نے نہ کرنے کی باتیں وہی ہیںجن سے عقلِ صاف او رروح پا ک کو رغبت یا نفرت ہو 98 21
140 اصول:۱۱= دینِ حق مرغو بِ طبع ہو تا ہے 99 21
141 اصول:۱۲=روح کو بدن پر ہر بات میں قیاس نہیںکیا جا سکتا 100 21
142 اصول:۱۳= طبیعت کی رغبت کا اثر تب ہی ظا ہر ہو گا جب کہ مانع نہ ہو 100 21
143 دینِ حق جب مرغوبِ طبیعت ٹھہرا،تو طبیعت کے موافق عمل درآمد کرنا چا ہیے؟ 101 21
144 امراضِ روحانی کو مرض نہ سمجھنے کی مثالیں 101 21
145 مثال(۱)معاشرتی امراض(Social diseases) 102 21
146 مثال(۲):نسلوں اور قوموں کے امراض 102 21
148 مثال(۳)امراض پیشہ(Occupation) 102 21
149 مثال(۴)امراضِ عادات(Habbitual diseases) 102 21
150 مثال(۵)موروثی(Heriditary) 102 21
151 تبدیلیٔ زمانہ سے احوال و احکام میں تبدیلی 102 21
152 اصول:۱۴=ہر عمل کسی نہ کسی مرتبے کا حسن و قبح رکھتا ہے 103 21
153 اختتامی التماس 104 21
Flag Counter