علومِ عالیہ کے لیے علومِ آلیہ کی ضرورت ہے
’’قرآن،فقہ و احادیث کا سمجھنا منطق کے بغیر مشکل ہے اس لیے منطق پڑھنی ضروری ہے۔...اوامر و نواہی کا سمجھنا تو آسان ہے؛لیکن
استنباطِ مسائل اور تحقیق کے لحاظ سے قرآن کا سمجھنا بدوں منطق اور علوم آلیہ کے دشوار ہے ۔اس لیے علومِ عالیہ کے لیے علومِ آلیہ کی ضرورت ہے۔‘‘
دور جدید میں جن حضرات سے دین کو نفع ہوا،وہ معقول ہی کی بدولت ہوا
’’اِس اخیر زمانہ میں جن حضرات سے دین کو نفع ہوا،وہ معقول ہی کی بدولت ہوا،انہوں نے معقول کو منقول کر کے دکھلا دیا تاکہ اغبیاء کی سمجھ
میں آجا ئے۔ مولانا یعقوب صاحب فرما تے تھے کہ میں جس طرح مطالعۂ بخاری کو موجبِ اجر سمجھتا ہوں،اُسی طرح میر زاہد اور امورعامہ کو؛
کیوں کہ مقصود اِن کا اچھا تھا۔‘‘(ملفوظات حکیم الامت ج۱۵ ملفوظات اطہر ص۶۹)
اورپھر بعد ہی میں یہ بھی پتہ چلا کہ ہمارے اِن اکابر نے ہی فلسفہ کے مغالطوں کو دور کیا ہے (اِس کی تصدیق کے لیے ملاحظہ ہو تقریر دل پذیر اور قبل نما میں بحث ’’مکان‘‘،بحث قوانین فطرت ،التقصیر،الانتباہات،بیان القرآن،ملفوظات و مواعظ، و تصانیف کثیرہ از حکیم الامت وغیرہ‘‘مثلاً)منطق اور علوم عقلیہ کی پیچیدگیوں کو حل کیا ہے اور یہ بتلایا ہے کہ علوم تو اہلِ حق کے ہوتے ہیں:
’’علوم تو اہلِ حق کے ہوتے ہیں۔باقی منطقیوں کے یہاں تو لفظی چکر ہوتے ہیں۔اُن سے کلامی ہذا کاذب کا حل نہیں ہوتا۔یہ نہیں سمجھتے کہ
احتمالِ صدق و کذب اُس کلام میں ہو تا ہے جو محاورات میں بولے جاتے ہیں،یہ تو گھڑی ہوئی مثال ہے۔اسی طرح ایک اِشکال اور کیا گیا
ہے،وہ یہ کہ موجود دو قسم پر ہے:موجود فی الخارج اور موجوڈ فی الذہن۔اور یہ دونوں مسلم ہیں۔پھر شبہہ یہ ہوا کہ ذہن خارج میں ہے،تو موجود
فی الذہن بھی موجود فی الخارج ہوا؛گو بواسطہ ذہن کے ہیں،تو قسیم قسم بن گیا۔جواب یہ ہے کہ موجود فی الخارج جو جو قسیم ہے موجود فی الذہن کی
جو(وجود کے لحاظ سے ۔ف)موجود فی الخارج ہے،وہ بواسطہ ذہن کے ہے؛اس لیے یہ موجود فی الخارج نہ ہوگا۔منطقی صرف الفاظ کی پرستش
کرتے ہیں،اور کچھ نہیں۔‘‘(ملفوظ ج۴ ۱’’کلمۃ الحق ص۹۴،۹۵‘‘)
پھر نظر جب منتشر ہوئی اور متعدد افکار و نظریات کے مطالعہ سے سابقہ پیش آیا،توآنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔معلوم یہ ہوا کہ معقولات کی مخالفت کرنے وا لوں میں سے علومِ مغربیہ کا سایہ جس کسی پر پڑا ،اُس نے چھوٹتے ہی تقدیر پر اعتراض کیا اور اُس کی تفسیر بدلنے کی کوشش کی۔عقل و نقل کی ترجیحات کے اصولوں میں مغالطہ دیا۔خلافِ عادت اور خلافِ عقل،خرقِ عادت اور قا نون فطرت کی تشریح میں مغالطہ دیا۔معجزہ کی حقیقت میں خلط سے کام لیا۔معجزہ کو دلیل نبوت ماننے سے انکار کیا،عادۃ اﷲ اور صحیفۂ فطرت کو وعدۂ فعلی قرار دینے اورکلام اﷲ کو وعدۂ قولی باور کرانے میں اور اِن دونوں کی تشریح میں التباس فکری سے کام لیا۔سائنس کے مسائل کوقرآن کے ساتھ تطبیق دینے کے باب میں عقلی اصولوں کی خلاف ورزی کی۔سا ئنس سے مرعوبیت کے نتیجہ میں،اہل سائنس کی اتباع کی اور اسباب طبعیہ میں سبب کا انحصار قرار دے کر آیتوں کے ظاہر معنی کو ترک کیا ۔بے ضرورت تاویل کر کے تفسیر کے اصولوں کو اور عقلی اصولوں کو پامال کیا۔معاملات و سیاسات کے جزوِ شریعت ہو نے کا انکار کیا ۔ حضرت تھانویؒ کے الفاظ میں:
’’معاملات وسیاسات کے جزوشریعت یا شریعت دائمہ نہ ہونے کا اس سے شبہہ ہوگیا ہوکہ ہم بعض احکام کو مضر تمدن دیکھتے ہیں پس یا تو
وہ احکامِ الٰہیہ نہیں ہیں یا اس زمانے کے ساتھ خاص ہوں گے۔ اس کا حل انتباہِ سوم میںبضمن تقریر شبہہ متعلق غلطی پنجم مذکورہوچکا ہے
پس ہم کواس کی بھی ضرورت نہیں کہ ان احکام کو زبردستی مصالح موہومہ پر منطبق کرکے آیات واحادیث کے غلط معنی گھڑیں اور احکام کو
ان کی اصلیت سے بدلیں، جیسامدعیان خیرخواہی اسلام کی عادت ہوگئی ہے کہ مبانی اعتراض پر مطالبۂ دلیل کوبے ادبی سمجھ کر اعتراض کو
تسلیم کرکے خود حکم معترض علیہ کو فہرست احکام سے نکال کر اس کی جگہ دوسرا حکم محرَّف بھرتی کرکے اس مضمون کے مصداق بنتے ہیں
{وَاِنَّ مِنْہُمْ لَفَرِیْقاً یَلْوُوْنَ اِلٰی قَوْلِہِ وَہُمْ ْیَعْلَمُوْنَ}(اوربے شک ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ کج کرتے ہیں اپنی زبانوں کو
کتاب پڑھنے )میں (یعنی اس میں کوئی لفظ یا تفسیرغلط ملادیتے ہیں۔تاکہ تم لو گ اس کو کتاب کا جز سمجھو حالانکہ وہ کتاب کا جز نہیں اور