کچھ کرنا چا ہتے ہیںجو اُن کے پیش رو چا ہتے تھے۔سلف کے صحیح اصولول کی تقلید کے مقابلہ میں حالی پہلے ہی کہہ چکے تھے:’’آؤ پیرویٔ مغرب کریں‘‘اور ہم بتا چکے ہیں کہ جس طرز اور روش کو ایک مرتبہ سر سید،حالی اور شبلی قائم کر چکے ہیں،بعد کے مفکر اُسی کی پیروی کررہے ہیں؛ خواہ وہ سائنس سے واقف نہ ہوں ،قوانین فطرت کے deductive methodاور اُس کے مقابلہ میں inductive methodکے فرق کو سمجھتے نہ ہوں،اور اُن کے حدود و اصول اُن کے قابو سے باہر ہوں۔افسوس!مغرب کی اندھی تقلید درست قرار پا گئی اور اپنی ہوائے نفسانی کے مقابلہ میں اکابر کی فہم پر اعتماد نا درست ،فیا اسفا!
نصاب درس کے ادوار:
جناب سلیمان حسینی ندوی نے مدارس میں پڑھائے جا نے والے نصابِ درس کے پانچ دور قائم کیے ہیں۔دور سوم کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس دور ’’کے نصاب درس پر ایک ہلکی نظر ڈالنے کے لیے حضرت شاہ ولی اﷲ دہلوی کے نصاب درس کا تذکرہ کافی ہو گا جس کا تذکرہ انہوں نے ’’الجزء اللطیف‘‘میں کیا ہے ۔‘‘اس میں انہوں نے’’ فلسفہ ’’شرح ہدایۃ الحکمۃ‘‘،کلام میں’’ شرح عقائد نسفی مع حاشیہ خیالی‘‘و ’’شرح مواقف‘‘،...طب میں ’’موجز القانون‘‘کا تذکرہ کیا ہے۔‘‘’’چوتھا دور بارہویں صدی ہجری سے شروع ہوا۔اس کے بانی ملا نظام الدین تھے۔‘‘اس میں انہوں نے’’حکمت میں ’’میبذی‘‘،’’صدرا‘‘،’’شمس بازغہ‘‘،ریاضی میں’’خلاصۃ الحساب‘‘،’’تحریراُقلیدس‘‘،’’مقالۂ اولی‘‘،’’تشریح الافلاک‘‘،’’رسالۂ قوشجیہ‘‘،’’شرح چغمینی‘‘باب اول....کلام میں ’’ شرح عقائد نسفی ‘‘،’’ شرح عقائد جلالی‘‘،’’میر زاہد‘‘،’’شرح مواقف‘‘اس کے بعد پانچواں دور قائم کرتے ہو ئے مولف رقمطراز ہیں:’’یہ اسلامی تعلیم گا ہوں کے زوال کا دور ہے.... اس دور میں جو نصا ب تعلیم متعین ہوا وہ در اصل پچھلے درس نظامی کی بگڑی ہوئی صورت ہے اور وہی آج تک اسلامی تعلیم گا ہوں میں رائج ہے۔اس نصاب میں گزشتہ نصاب کے مضامین اور اس کی اکثر کتابوں کے ساتھ جو نمایاں تبدیلیاں ہوئیں(اُن میں۔ف)....مناظرہ میں ’’رشیدیہ۔‘‘(دیکھئے: ص۹۱ تا۹۳)یہ ذکر کرنے کے بعد مفکر سلمان حسینی ندوی نے فنون پر تبصرہ اور جائزہ پیش کیا ہے۔
اضطرابات سلمان حسینی بشکلِ التباسِ فکری
التباس-۱=فلسفہ کی ضرورت اور علم کلامکی ماہیت میں مغالطہ
’’علم کلام کے متعلق سبھی جانتے ہیں کہ مسلمانوں کا وہ ایک فلسفہ ہے،اور یہ واقعہ بھی ہے کہ جب ’’عنصریات‘‘و’’کائنات الجو‘‘ تک کے
مباحث کلامی کتابوں کے اجزاء بنا دیے گئے ہیں،تو اُس کے فلسفہ ہو نے میں کون شبہہ کر سکتا ہے۔ ‘‘(ص۹۵)
عرض احقر=:لیکن اِس میں حرج کیا تھا؟بلکہ اس سے تو نفع ہی ہوا کہ اِس راہ سے جو اعترا ضات ہوئے،اُن کا جواب آسان ہو گیا۔چناں چہ خود مولف نے اپنی تفسیر’‘آخری وحی’‘میں یہی کر رکھا ہے یعنی کائنات الجو کے’’ مسلمات‘‘ کے ذریعہ مغالطہ دے رکھا ہے جس کا جواب مسئلہ کی کلامی نوعیت سمجھے بغیر دیا نہیں جا سکتا۔اِس قسم کے اعتراضات سو سال پہلے علامہ شبلی کی طرف سے کیے گئے تھے۔افسوس!جو اُٹھتا ہے،بے سوچے سمجھے اُنہی کو دہراتا ہے۔حالاں کہ موصوف اپنی کتاب میںیہ بات قرآن کے متعلق فرما چکے ہیں کہ’’کسی اور مذہبی کتاب میں فطرت کے مطالعہ پر اِتنا زور نہیں دیا گیا ہوگا جتنا قرآن مجید میں ہے۔‘‘(ص۸۱)اور پھر قرآن کریم سے’’ عنصرات‘‘،کاسمو لوجی(Cosmology)،فلکیات،’’کائنات الجو‘‘ اور معادنِ ثلاثہ کی مثالیں ذکر کر کے خود قرآن کو فلسفۂ سائنس(Philosophy of science) کی کتاب کی حیثیت سے پڑھنے کی ترغیب دے ڈالی ہے ۔عقل کا وہ مرتبہ جسے’’جزبرہ‘‘کہئے کہ آدمی اِس زعم میں مبتلا ہو جا ئے کہ:ع=مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔اور حال یہ کہ اطاعت کرے اُن پیش رؤں کی جن کی سائنس سے واقفیت پر ،شرعی اصولوں کی درست فہم و تفہیم پر،فلسفہ کے صائب استعمال پر خود سوالیہ نشان لگا ہوا ہے، اَوَلَا یَعْلَمُوْنَ شَیْئاً وَّلَا یَہتَدُو ْنَ عقل