نگاری جن جن روشوں پر چلی اور ترقی کرتی رہی،وہ ایک ایسا باب ہے جسے اس داستان سے الگ ہی رکھا جا ئے،تو مناسب ہے۔ ‘‘ (علی گڑھ میگزین نمبر ۱۹۵۳-۱۹۵۵ء ص ۷۲،۷۳) لیکن کہنا اِس باب میں یہ ہے کہ شبلی جس ادب اور تاریخ کی سفارش کر رہے ہیں،اور درسیات میں اُن کے شامل نہ ہو نے کے شاکی ہیں،اُس کی حیثیت کلمۃ حق ارید بہا الباطل کی ہے۔اِس سے مقصود اُن کا وہی ہے جو سر سید کا ہے؛یعنی نیچریت۔چناں چہ عربی یا اردو کے جن ادیبوں نے اُن کی سفارش قبولی کی اُن کے عقیدے اور خیالات ضرور مغرب زدہ ہو گئے۔دوسری طرف عوام کاحال یہ ہے کہ:
’’آج کل لوگ تر مضامین کو پسند کرتے ہیں جیسے تاریخ وغیرہ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس قسم کے مضامین سے کان خوش ہوجاتے ہیںاور کچھ کرنا نہیں پڑتا۔‘‘
(ملفوظات جلد ۱۹ ص۳۳)
۴-ج=مغربی عقلیت
ادب و تاریخ کی سفارش کرنے والے ایک طرف تو قدیم مدارس میں داخلِ درس ،معقولات کے معترض ہیں؛لیکن دوسری طرف مغرب زدہ عقلیت کے دلدادہ بھی ہیں۔اِس باب میں سر سید کے خیالات کے متعلق یہ کہا جا تا ہے کہ وہ:
’’تجرباتی عقل (تجربہ اور مشاہدہ کی وساطت سے حقیقت تک پہنچنے والی عقلEmpirical reasion=)کے ماننے والے ہیں۔یا دوسرے الفاظ میں
وہ(اُس) عقل(کے پیرو کار ہیں۔ف) جو نیچر کے خارجی و باطنی مظاہر پر غور کرتی ہے،اور اُن سے حقائق اشیاء تک پہنچتی ہے۔‘‘جناب عمر الدین صاحب
نے اپنے مضمون’’سر سید کا نیا مذہبی طرزِ فکر ‘‘میں مذکورہ امر کا تذکرہ کرنے کے بعدلکھا ہے کہ:’’اس لحاظ سے سر سید کے نظریۂ علم کا رشتہ ڈیکارٹ اور اسپنوزا جیسے عقلیین کے مقابلہ میں بیکن،لاک اور مل جیسے تجربیین تک پہنچتا ہے۔‘‘
لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم رہنا چا ہیے کہ سائنس اور سائنسدانوں کے ساتھ سر سید کا یہ رشتہ محض تقلید اور اتباع کے درجہ میں ہے ؛کیوں کہ اُن کا خود توتجربی،استخراجی اور اختباری اعمال سے شغف رہا نہیں، اس لیے سائنس کے دریافت کردہ اصول اور قوانین پرتنقید،تبصرہ،یا معیار صحت کو جانچنا بھالنا، ان کی سطح سے آگے کی چیز تھی۔اور یہ تقلید اِس درجہ پست اور جامد تھی کہ مثلاً قوانین فطرت کے جس مغربی تصورکی قطعیت کے سر سید قائل تھے،اور اُسے عقائد سے لے کر معاشرتی احکام تک میںجاری اور نافذ کرنے کے درپے تھے، ملؔ اورہیومؔ نے اُس تصور پر سخت تنقید کر کے اُس کی قطعیت اور ثبات کو چیلنج کر دیا تھا؛لیکن سر سید پرانے تصور کو ہی دل و جان سے عزیز سمجھ کرسینے سے لگائے ہو ئے تھے۔ ،(دیکھئے:سر سید اور حالی کا نظریۂ فطرت ازڈاکٹر ظفر حسن ص؟)نظریۂ علم کی سائنسی پرواز میں تو یہ بے بسی تھی۔رہی تجربیین کے اصولوں کو پرکھنے کی بات ،تو اِس کے لیے خوداُن کے پاس عقل وعلم کا کوئی ایساسرمایہ نہ تھا جس سے سائنسی اصولوں کو پرکھا جاسکتا،اُن اصولوں کے صحت و سقم کا فیصلہ کیا جاتا،یا اُن کے ظنی و قطعی ہونے کی نشاندہی ممکن ہوتی۔معقولات سے وہ باغی تھے،دشمن کی مزاحمت کا جواب دینے کے لیے انہوں نے دشمن کی ہی
چاپلوسی اور کاسہ لیسی اختیار کر لی تھی۔اُن کے پاس خود کوئی ایسی کسوٹی نہ تھی جس سے وہ سائنسی تحقیق کے کھرے کھوٹے اورحاصل ہو نے وا لے نتائج کی قطعیت و مفروضیت کو سمجھ سکتے۔لہذا اُن کا رشتہ لاکؔ، ملؔ تک پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ تقلید اور اتباع کے باب میں یہ حضرات سر سید کے آئیڈیل تھے؛مگر جب خود ان تجربیین و طبعیین کی تحقیقات میں راجح و مرجوح،سہو و خطا،نسخ و استدراک ،آوٹ آف ڈیٹ اور اپڈیٹیڈ کی تفصیلات موجود ہیں،اور سر سید کو اُن کی اطلاع نہیں،توان کی یہ تقلید،ہم نہیں کہتے کہ ’’اندھی ‘‘تھی یا’’بے دلیل‘‘تھی،البتہ خود اُن کے اسلوب میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بعد میں آؤٹ آف ڈیٹ نہیں؛بلکہ خود ان کے اپنے عہد میں بھی آؤٹ آف ڈیٹ ہو چکی تھی۔ جناب عمر الدین صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’وہ(سرسید)استخراجی طرزِ استدلال سے بھی کام لیتے ہیں،لیکن( اپنی عقل سے نہیں؛بلکہ مغرب کے بتائے ہوئے طریق سے۔ف)اسی حد تک
جس کی تجرباتی یا سائنسی استدلال(یعنی مغرب کے وضع کردہ قوانین فطرت،یا برپا کردہ سائنسی تہذیب ۔ف) میں گنجائش ہے۔ غرض سر سید ہر قسم