میں چند ایسے قوانین فطرت ہیں جن پر دنیا کے ہر گو شے کے لوگ متفق ہیں۔‘‘(نظریۂ فطرت ص ۱۹۰)
سترہویں صدی کے ایک اہم مفکر ہابس نے سائنس ،انسان اور کا ئنات کے تصورات کو یکجا کیا تھا اورموجودہ معاشرتی نظام کو توڑ کر اُسے پھر سے فطری کیفیت کے لحاظ سے جوڑ کر معاشرہ کو از سر نو ترتیب دینے کی وجہ سے ا خلاقیات کے باب میں:
’’جو کچھ انسان کی پسند یا خواہش ہو اُس کو وہ خیر کہتا ہے اورجو کچھ اُس کی ناپسندیدگی کا باعث ہو ،اُسے وہ شر سے تعبیر کرتا ہے۔‘‘بعد میں
’’روسو نے ہابس کی پیروی کی اور کہا کہ ریاست کے سلسلے میں اعلی اقتدار پر کوئی بندش نہیں ہے۔‘‘(نظریۂ فطرت ص۱۶۳)
وطن عزیز کے مفکر حالی نے اِس نظریہ کی پیروی میں سر سید کا دفاع کرتے ہو ئے کہا:
’’ایک ریفارفر ...کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ...اپنے خیالات اور اپنی رایوں کی بھی اصلاح کرتا جا ئے۔‘‘(حیات جاوید ص۳۸۱)
ایک اور اہم مفکرلاک :
’’کو یقین تھا کہ جس طرح فطرت یا کائنات میں ایسے قوانین مو جود ہیں جو گرتی ہو ئی چیزوں پر اور اُن کی رفتار پر عائد ہو تے ہیں،
اُسی طرح انسانی معاشرے میں ایسے قوانین ہیں جن کے تحت معاشرہ قائم رہتا ہے۔‘‘(نظریۂ فطرت ص۱۶۴)
لہذا اُس کے مطابق اخلاقی اصولوں کی دریافت کے لیے اور معاشرتی قوانین کا:
’’علم حاصل کرنے کے لیے فطری یا تجربی طریقہ ہی صحیح طریقہ ہے اور کو ئی عقلی ما بعد الطبیعاتی طریقہ نہیں ہے۔‘‘(ص۱۶۳)
۱۷-ج=خیر و شر،بھلائی-برائی کا معیار از الامام محمد قاسم النانوتویؒ
اِن تلبیسات کا ازالہ حضرت نانوتویؒ کی تحریروں میں موجود ہے۔مذکورہ مسئلہ حل کرنے کے لیے حضرتؒ نے پہلے خیر و شر کے وجود پر گفتگو کی ہے ،اور اِس طرح اُس کا ایک محسوساتی معیار واضح فرمایا ہے۔کیوں کہ اہل یورپ نے فطرت کا قانون،معاشرے کا قانون،وجدانی خیر و شر کی خصلت کا قانون،انسان کی پسند و ناپسند کا قانون اقتدار اعلی کا قانون،اِن سب کے متعلق جو فطری فقہ اور فطری قوانین ہو نے کے دعاوی پیش کیے ہیں،ان کا حاصل ہوائے نفسانی کی پیروی ہے،اوریہ دعاوی عقل کی نظر میں بالکل بے دلیل ہیں؛لیکن حضرت نانوتویؒ نے حواس خمسہ ظاہرہ کی فطریات سے جواصول پیش کیا،وہ ایسا بدیہی ہے کہ اُس کا اِنکار دشوار ہے،فرماتے ہیں:
خیر و شر کا محسوساتی معیار:
’’عالمِ ظاہرکی پانچ قسمیںہیں:مبصرات،مسموعات،مشمومات،،مذوقات،ملموسات،یعنی ( تمام محسوسات۔ف)جو اِن پانچ حواس (آنکھ،کان،ناک،زبان اور جلد ۔ف)سے معلوم ہو تے ہیںاورپانچ کی پانچوں قسموں میں بھلے ،برے کا فرق ہے ۔صورت،شکل،آواز،ذائقے وغیرہ میں سے اگر ایک اچھی ہے ،تو دوسری بری،پھر کیا معنی کہ اعمال میں حسن و قبح کا فرق نہ ہو؟‘‘
یہ ایک قدرتی اصول ہے جس کو ایک اٹل پیمانہ قرار د یا،اُس کے بعد خواصِ اشیاء کے اِسی محسوساتی اور طبعیاتی اصول سے یہ ثابت کیا کہ:
’’ اعمالِ ظا ہر؛بلکہ اخلاقِ باطن کے حسن و قبح کا فرق اور خیر و شر کا معیار متعین ہے ،اور ہر عمل کسی نہ کسی مرتبے کا حسن و قبح رکھتا ہے۔‘‘(تقریر دل پذیر ص۱۷۲)
خیر و شر کا عقلی معیار :