اِثباتِ حسن و قبح کی سنا تا ہوں۔‘‘(ص۱۵۲)
(یہ دو دلیلیں ،دو بحثیں ہیں،جن میں چار باتوں کو مدارِ اخلاق قرار دیا گیا ہے۔بحث نمبر (۱)اعمال و افعالِ اِختیاری سے متعلق ہے۔اوربحث نمبر(۲)اعمال و افعالِ اِختیاری اور اخلاقِ قلبی کی باہمی نسبت سے متعلق ۔اصولی طور پر یہ اوصافِ ہشتگانہ ہیں۔چار اخلاقِ حمیدہ ، اور چار اُن کے مخالفات۔ ۱۵۲ تا۱۶۱)
اصول:۱۴=ہر عمل کسی نہ کسی مرتبے کا حسن و قبح رکھتا ہے
’’ اس راز سے پردہ حضرت نانوتوی ؒ نے اٹھا یا ہے۔ پہلے اسی شبہ کا ذکر کیا ہے جومو جودہ جمہوریت اور سیکولر تمدن کا سب سے بڑے شبہہ کے طور پر اوپر والٹئر کے الفاظ میں ہم ذکر کر چکے ہیں کہ:’’کوئی کسی کو اچھا سمجھتا ہے،کوئی کسی کو برا‘‘یہ ایسا شبہہ ہے کہ اب محض شبہہ نہیں رہا؛بلکہ بطور اصول موضوعہ کے قانونی درجہ اختیار کر گیا ہے اِسی کی بنا پر موجودہ دور کے جمہوری عالمی نظام میںیہ دستور مقرر کر لیا گیا ہے کہ جس چیز کو زیادہ تعداد میں لوگ پسند کریں وہ خیر ہے اور جسے نا پسند کریں وہ خیر نہیں ہے۔ ‘‘
جمہوریت کی طرف سے مقرر کردہ اِس ’’مسلمہ ‘‘یا خرابی کو مفتی محمد تقی عثمانی مد ظلہ نے نہایت شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے اور اِس سوچ سے پروان چڑھنے والی معاشرتی و دینی خرا بیوں کا تفصیل کے ساتھ جائزہ پیش کیا ہے۔لیکن خیر و شر کا عقلی معیار جو مغربیوں کی اِس دریافت کے ساتھ جس اِلتباسِ فکری کا شکار ہو گیا تھا،ان فکری التباسات کورفع کرنا اور صحیح معیار پیش کرنا، عہد جدید میںحضرت نانوتویؒکا ایسا کارنامہ ہے کہ ما بعد جدیدیت میں بھی جب کہ سارے ہی حالات واشگاف ہو چکے ہیں، اُس کی نظیر نہیں ملتی۔
حضرتؒ نے عمل کے حسن و قبح کے اصولی طور پر چار معیارات متعین فرمائے ہیں،جو عقلی طور پر بالکل یقینی ہیں ۔پھر جزئیات میں اطلاقی حیثیت سے اِن کی تفصیلات ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
’’کہنے میں تو یہ چار ہیں،پر غور سے دیکھئے،تو ان کا پھیلائو رشتۂ خیال کو بھی تنگ کر دیتا ہے۔کمتر ایسے مجمل مضمون ہوں گے کہ جن کی اتنی بڑی تفصیل ہو۔‘‘((تقریر دل پذیر۱۵۲تا۱۵۶)،چناں چہ اِن معیاراتِ اربعہ پر تفریعات،اور اِن کے مقابل چار اور معیارات کا ذکر ،(تقریر دل پذیر ص۱۵۶تا۱۶۰)،پھرمعیارات مذکورہ(اخلاق ہشتگانہ)سے ظاہر ہو نے وا لے فوائد ثلاثہ ذکر کرنا،((تقریر دل پذیرص۱۶۱ تا ۱۶۴)اوراِن فوائد کی وضاحت کرتے ہوئے معتزلہ قدیم کے ساتھ ساتھ معتزلہ ٔجدید(فرقۂ نیچریہ) کا رد کرنا،نیز اُن کے فکرو خیال میں پائی جانے والی تین خرابیوں کے ذیل میں فطرتِ انسانی کی حقیقت،طبیعت کی حقیقت اور اُن میں پائے جانے والے التباسات کو رفع فرمانا ۔یہ ایسا انوکھا بیان ہے کہ اب اِس کے بعدمذکورہ مسئلۂ میں عقلی بنیادوں پر بعید سے بعید شبہے کی بھی گنجائش باقی نہیں رہ جا تی۔ (دیکھئے :تقریر دل پذیر ص۱۶۵تا۱۷۲)(۱)حضرت کا یہ عقلی بیان بہت مفصل ہے،اور ہمیں افسوس ہے کہ صرف اِسی قدرایک جھلک دکھانے پر اکتفا کرنا پڑ ا۔
پہلے’’ معقولات اور فلسفہ کی ضرورت:افکار جدیدہ کے تناظر میں‘‘ کے تحت اہل ِ سائنس کا Impiricism طریقۂ کار مذکور ہوا تھا ۔ہم نے وہاںیہ بتلایا تھا کہ ایک خاص گروہ ہے جو Impiricism کا علمبردار ہے ؛لیکن اختیار کرنے کے لحاظ سے اور عقیدہ کے نقطۂ نظر سے اِس طریقہ کار کا حامی ہر سائنس داں ہے جو اپنا وظیفۂ عمل اسی طریقۂ کارکو بنا ئے ہو ئے ہے،پھر اپنے اپنے رجحانات کے تحت اِن کے ا لگ الگ نام باعتبار غلو کے ہیں کہ کسی نے کسی سمت میں غلو کیا اور کوئی کسی سمت میں حد سے تجاوز کر کے رومانیت،جمالیت،وجدان،حقیقت پسندی،جمالیت و الٰہیت وغیرہ کی طرف متوجہ ہو گیا۔اور سائنٹفک میتھڈ کے اِس طریقۂ کارکی روشنی میں اہل سائنس کا عقیدہ کہ یہ ہے کہ وہ کُلُّ مَوْلُوْدِِ یُوْلَدُ علی الْفِطْرۃِ کا،اور خیر و شر کے ازلی حقیقت ہونے کا منکر ہے۔ہر شی کو وہ کسبی گردانتا ہے؛’’مسئلۂ خیرو شر‘‘ ایک تو خود اپنی اصل کے لحاظ سے نازک ہے،اس لیے یہ غیر ممکن ہے کہ کوئی شخص سائنس کی راہ سے مسئلہ کی حقیقت کو پا سکے۔ فطرت سے مراد اِن کے یہاں نیچرل سائنس ہے،نصوص میں مذکور ’’فطرت‘‘کے یہ منکر ہیں۔اِس باب میں اہل سائنس نے اپنے دلائل،شواہد کے ذریعہ سائنس کا رعب ڈال کر جو