Deobandi Books

الامام محمد قاسم النانوتوی کی فکر اور بدلتے حالات میں مدارس کی تر جیحات

103 - 104
اِثباتِ حسن و قبح کی سنا تا ہوں۔‘‘(ص۱۵۲)
 (یہ دو دلیلیں ،دو بحثیں ہیں،جن میں چار باتوں کو مدارِ اخلاق قرار دیا گیا ہے۔بحث نمبر (۱)اعمال و افعالِ اِختیاری سے متعلق ہے۔اوربحث نمبر(۲)اعمال و افعالِ اِختیاری اور اخلاقِ قلبی کی باہمی نسبت سے متعلق ۔اصولی طور پر یہ اوصافِ ہشتگانہ ہیں۔چار اخلاقِ حمیدہ ، اور چار اُن کے مخالفات۔ ۱۵۲ تا۱۶۱)
اصول:۱۴=ہر عمل کسی نہ کسی مرتبے کا حسن و قبح رکھتا ہے
’’ اس راز سے پردہ حضرت نانوتوی ؒ  نے اٹھا یا ہے۔ پہلے اسی شبہ کا ذکر کیا ہے جومو جودہ جمہوریت اور سیکولر تمدن کا سب سے بڑے شبہہ کے طور پر اوپر والٹئر کے الفاظ میں ہم ذکر کر چکے ہیں کہ:’’کوئی کسی کو اچھا سمجھتا ہے،کوئی کسی کو برا‘‘یہ ایسا شبہہ ہے کہ  اب محض شبہہ نہیں رہا؛بلکہ بطور اصول موضوعہ کے قانونی درجہ اختیار کر گیا ہے اِسی کی بنا پر موجودہ دور کے جمہوری عالمی نظام میںیہ دستور مقرر کر لیا گیا ہے کہ جس چیز کو زیادہ تعداد میں لوگ پسند کریں وہ خیر ہے اور جسے نا پسند کریں وہ خیر نہیں ہے۔ ‘‘
جمہوریت کی طرف سے مقرر کردہ اِس ’’مسلمہ ‘‘یا خرابی کو مفتی محمد تقی عثمانی مد ظلہ نے نہایت شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے اور اِس سوچ سے پروان چڑھنے والی معاشرتی و دینی خرا بیوں کا تفصیل کے ساتھ جائزہ پیش کیا ہے۔لیکن خیر و شر کا عقلی معیار جو مغربیوں کی اِس دریافت کے ساتھ جس اِلتباسِ فکری کا شکار ہو گیا تھا،ان فکری التباسات کورفع کرنا اور صحیح معیار پیش کرنا، عہد جدید میںحضرت نانوتویؒکا ایسا کارنامہ ہے کہ ما بعد جدیدیت میں بھی جب کہ سارے ہی حالات واشگاف ہو چکے ہیں، اُس کی نظیر نہیں ملتی۔ 
حضرتؒ نے عمل کے حسن و قبح کے اصولی طور پر چار معیارات متعین فرمائے ہیں،جو عقلی طور پر بالکل یقینی ہیں ۔پھر جزئیات میں اطلاقی حیثیت سے اِن کی تفصیلات ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
’’کہنے میں تو یہ چار ہیں،پر غور سے دیکھئے،تو ان کا پھیلائو رشتۂ خیال کو بھی تنگ کر دیتا ہے۔کمتر ایسے مجمل مضمون ہوں گے کہ جن کی اتنی بڑی تفصیل ہو۔‘‘((تقریر دل پذیر۱۵۲تا۱۵۶)،چناں چہ اِن معیاراتِ اربعہ پر تفریعات،اور اِن کے مقابل چار اور معیارات کا ذکر ،(تقریر دل پذیر ص۱۵۶تا۱۶۰)،پھرمعیارات مذکورہ(اخلاق ہشتگانہ)سے ظاہر ہو نے وا لے فوائد ثلاثہ ذکر کرنا،((تقریر دل پذیرص۱۶۱ تا ۱۶۴)اوراِن فوائد کی وضاحت کرتے ہوئے معتزلہ قدیم کے ساتھ ساتھ معتزلہ ٔجدید(فرقۂ نیچریہ) کا رد کرنا،نیز اُن کے فکرو خیال میں پائی جانے والی تین خرابیوں کے ذیل میں فطرتِ انسانی کی حقیقت،طبیعت کی حقیقت اور اُن میں پائے جانے والے التباسات کو رفع فرمانا ۔یہ ایسا انوکھا بیان ہے کہ اب اِس کے بعدمذکورہ مسئلۂ  میں عقلی بنیادوں پر بعید سے بعید شبہے کی بھی گنجائش باقی نہیں رہ جا تی۔ (دیکھئے :تقریر دل پذیر ص۱۶۵تا۱۷۲)(۱)حضرت کا یہ عقلی بیان بہت مفصل ہے،اور ہمیں افسوس ہے کہ صرف اِسی قدرایک جھلک دکھانے پر اکتفا کرنا پڑ ا۔
 پہلے’’ معقولات اور فلسفہ کی ضرورت:افکار جدیدہ کے تناظر میں‘‘ کے تحت اہل ِ سائنس کا  Impiricism طریقۂ کار مذکور ہوا تھا ۔ہم نے وہاںیہ بتلایا تھا کہ ایک خاص گروہ ہے جو Impiricism کا علمبردار ہے ؛لیکن اختیار کرنے کے لحاظ سے اور عقیدہ کے نقطۂ نظر سے اِس طریقہ کار کا حامی ہر سائنس داں ہے جو اپنا وظیفۂ عمل اسی طریقۂ کارکو بنا ئے ہو ئے ہے،پھر اپنے اپنے رجحانات کے تحت اِن کے ا لگ الگ نام باعتبار غلو کے ہیں کہ کسی نے کسی سمت میں غلو کیا اور کوئی کسی سمت میں حد سے تجاوز کر کے رومانیت،جمالیت،وجدان،حقیقت پسندی،جمالیت و الٰہیت وغیرہ کی طرف متوجہ ہو گیا۔اور سائنٹفک میتھڈ کے اِس طریقۂ کارکی روشنی میں اہل سائنس کا عقیدہ کہ یہ ہے کہ وہ کُلُّ مَوْلُوْدِِ یُوْلَدُ علی الْفِطْرۃِ کا،اور خیر و شر کے ازلی حقیقت ہونے کا منکر ہے۔ہر شی کو وہ کسبی گردانتا ہے؛’’مسئلۂ خیرو شر‘‘ ایک تو خود اپنی اصل کے لحاظ سے نازک ہے،اس لیے یہ غیر ممکن ہے کہ کوئی شخص سائنس کی راہ سے مسئلہ کی حقیقت کو پا سکے۔ فطرت سے مراد اِن کے یہاں نیچرل سائنس ہے،نصوص میں مذکور ’’فطرت‘‘کے یہ منکر ہیں۔اِس باب میں اہل سائنس نے اپنے دلائل،شواہد کے ذریعہ سائنس کا رعب ڈال کر جو 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 فہرست مضامین 3 1
3 باب-۱=ام المدارس دار العلوم دیوبند کے موسسین کا امتیازی وصف اور اُن کے مقاصد عالیہ 7 1
4 باب-۲=نیچریت (Naturalism) 10 1
5 باب-۳=فکر دیو بند،تحریک علی گڑھ اورتشکیلِ ندوہ 18 1
6 باب-۴=نصابِ تعلیم 28 1
7 باب۵=معقولات کے داخلِ درس ہونے پر اعتراضات 38 1
8 باب ۶=چند دیگرمفکرین 54 1
9 باب۷=نصاب تعلیم کے حوالہ سے بعض درد مندوں کے اِضطرابات 58 1
12 باب-۸=دیوبند میں حضرت نا نوتویؒ کے رائج کردہ نصا بِ تعلیم پر ایک نظر(اشارات) 61 1
13 باب۹=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت:افکار جدیدہ کے تناظر میں 65 1
14 باب۱۰=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت(اشارات) از. الامام محمد قاسم نا نوتویؒ 70 1
15 باب ۱۱=معقولات اور فلسفہ کی تعلیم اورزمانۂ حال کے اربابِ درس کا اضطراب 75 1
16 باب ۱۲=عصر حاضر میں معقولات و فلسفہ کی شدید ضرورت 78 1
17 باب ۱۳=اصولِ قاسم اور اہلِ مدارس کے تحفظات 79 1
18 باب ۱۴=درسی کتابوں کا طریقۂ تدریس از۔ حکیم الامت مولا نا اشرف علی تھانوی 80 1
19 باب ۱۵=معقولات و فلسفہ کا اِطلاقی پہلو 83 1
20 باب -۱۶= اہل علم کی خدمت میں 88 1
21 باب ۱۷=علوم جدیدہ کا پیدا کردہ مسئلۂ خیر و شر 91 1
25 الف =نیچریت کا پس منظر 10 4
27 ’’انسانیت(Humanism)‘‘ کی حقیقت 10 4
28 ۲-ب= نیچریت کا مفہوم و مصداق اور متعدد شکلیں 12 4
29 حقیقت پسندی (Realism) 13 4
31 افادیت پسندی(Utility) 13 4
32 ندوہ کا منشور 19 5
34 التباساتِ فہد 20 5
35 (۱)مصلحین امت کی تعیین میں خلط 20 5
36 (۲)فاسد اصولوں کے انتساب میں تلبیس 20 5
37 (۳)اعتقادی اجزاء میں خلط و تلبیس 20 5
38 (۴)شعور سر سید کی وضاحت میں تلبیس 21 5
39 (۵)شعورقاسم کے تعارف میں خیانت 22 5
40 استدراک 22 5
41 ناظمِ دینیات کے فرائض مقرر کردہ سرسید احمد خاں 22 5
42 سرسید کی رواداری کا اصل منشا 22 5
43 مدرسۃ العلوم میں دینیات کی تعلیم اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ 23 5
44 مدرسۃ العلوم کی بنیاد اورحضرت مو لانا رشید احمد گنگو ہی،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کو شرکت کی دعوت 24 5
45 سر سید کے قاصد اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کی گفتگو 25 5
46 قاصد کا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کو مشورہ اور حضرتؒ کا جواب 25 5
47 یہ جواب کوئی عارف ہی دے سکتا تھا 25 5
48 دو شعور= شعور قاسم اورشعور سر سید 25 5
49 ۴ -جزئ اول=ادب،تاریخ ، اور مغربی عقلیت 29 6
50 ۴ -الف=ادب 29 6
51 ۴-ج=مغربی عقلیت 33 6
52 ۴-جزئِ دوم =تاریخ، ادب و عقلیت میں مغربی اصولوں کی تقلید کرنے والے چند اہم مفکرین 34 6
53 (۱) خواجہ الطاف حسین حالی 34 6
54 (۲)شمس العلماء شبلی نعمانی 35 6
55 (۳)محقق عبد الماجد دریابادی 35 6
57 (۱)سر سید(۲)علامہ شبلی 38 7
58 (۳)نصابِ تعلیم اورعلامہ سید سلیمان ندویؒ 39 7
59 (۴)نصابِ تعلیم اور جناب ابو الکلام آزاد 39 7
60 (۵)جناب سید سلمان حسینی ندوی او ر نصاب تعلیم 40 7
61 اضطرابات سلمان حسینی بشکلِ التباسِ فکری 42 7
73 مدیر ’’ الشریعۃ‘‘ 54 8
74 (۲)منتسبینِ قاسم 54 8
75 (۱)مولانا عبد العلی فاروقی لکھنوی زید مجدہ ۔ مدیر البدر 58 9
76 (۲)جناب ندیم الواجدی صاحب -مدیر ترجمانِ دیو بند 59 9
77 دیوبند میں ’’مروجہ نصابِ تعلیم‘‘ کی تجویز اور اس کی حکمت: 62 12
78 نصابِ درس کی خوبیاں 63 12
79 نصابِ درس کے وہ اہم امور جن پر سب سے زیادہ غم و غصہ ہے 64 12
80 جدید فلاسفی کی شاخیں اور جدید فلاسفرز 66 13
81 تحلیلی فلاسفی( Analytic philosophy) اور معروضی فلاسفی (Objectivism) 67 13
82 معروضی مطالعہ کی ترجیح-ایک لمحۂ فکریہ 68 13
83 این المفر =منطق سے فرارممکن نہیں 68 13
84 کیا منطق اور فلسفہ سے شغف رکھنے والے علوم نقلیہ سے بے زار ہو جاتے ہیں؟ 72 14
85 کیا اکابر سے منطق اور معقولات کی مذمت منقول ہے؟ 72 14
86 فلسفہ اور معقولات میں ا کابر وسلف کی مہارت 73 14
87 اضطراب اعجازی کی توجیہ 75 15
88 قول صائب : مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ ا ﷲ کی آپ بیتی 76 15
89 (الامام محمد قاسم النانوتوی اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے کلام کی روشنی میں) 78 16
90 (جامع معقول و منقول مولانا ریاست علی ظفر بجنوری مد ظلہ کی تنبیات کی روشنی میں ) 79 17
91 حلِّ مطالب پر اِکتفا کرنا چا ہیے،غیر ضروری تقریر مناسب نہیں 81 18
92 استاذ کے لیے بات کی پَچ مناسب نہیں 81 18
93 مولانا یعقوب صاحب رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
94 حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
95 محققین اکابررحمۃ ا ﷲ علیہم کے درس کی خصوصیت 82 18
96 استاذ کے لیے قابلِ لحاظ امر 82 18
97 اِستعداد کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ 82 18
98 اِستعداد کے موانع 82 18
99 زبان کھل جائے،بولنے کا عادی ہو جائے،اِس کا انتظام 82 18
100 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۱) 83 19
101 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۲) 83 19
102 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۳) 84 19
103 منطق کے بغیر آدمی درسیات پڑھا نہیں سکتا (حضرۃالاستاذعارف با ا ﷲ مولانا صدیق احمد صاحب رحمہ ا ﷲ ) 84 19
104 آپ بیتی: از مولف -فخر الاسلام 84 19
105 علومِ عالیہ کے لیے علومِ آلیہ کی ضرورت ہے 85 19
106 دور جدید میں جن حضرات سے دین کو نفع ہوا،وہ معقول ہی کی بدولت ہوا 85 19
107 مدارس کو اصول صحیحہ سے سروکار ہے ،محض جدید کا رعب کافی نہیں 86 19
108 نصابِ قدیم وجدید کی آویزش کا نتیجہ 87 19
109 خرابی کااصل سبب بزرگوں کے طریق سے بے نیازی 87 19
110 ۱۶-الف=گفتگوکا سرسری جا ئزہ (تلخیص) 88 20
111 ۱۶-ب=مشورے ، گزارشیں اور تجویزیں 89 20
112 (۱)اسلام پر پڑنے والے شبہات کے ازالہ کے لیے تجویز 89 20
113 (۲)چند مسئلوں کو جانچنے کی تجویز 90 20
114 ۱۷-الف= عقلی استدلال 91 21
115 ۱۷-ب=خیر و شر،بھلائی-برائی کا اصول اہلِ مغرب کی نظر میں 91 21
116 ۱۷-ج=خیر و شر،بھلائی-برائی کا معیار از الامام محمد قاسم النانوتویؒ 92 21
117 خیر و شر کا محسوساتی معیار: 92 21
118 خیر و شر کا عقلی معیار 92 21
119 اصول:۱=’’عقل موجدِ معلومات نہیں مخبر معلومات ہے‘‘ 93 21
120 باریک فرق معلوم کرنے کا مسئلہ،اور عقل کے التباسات 93 21
121 اصول:۲=جو چیز مطلوبِ اہم اور اور مقصودِ اعظم ہو تی ہے،اُسی پر بھلائی،برا ئی کا اِنحصار ہو تا ہے 94 21
122 نیک و بد،بھلا،برا ،خیر و شرکے ا طلاقات 94 21
123 جس بات پر انسان کی بھلائی برائی موقوف ہے،اُس کے دریافت کرنے کا طریقہ: 94 21
124 اصول:۳=انسان کا مقصودِ اہم اور مطلبِ اعظم نفع کے کام کر نا اور نقصان کے کا موں سے بچنا ہے 94 21
125 انسان کے اجزاء ترکیبیہ 95 21
126 نتیجۂ بحث:بعضے کام بھلے اور بعضے برے یقیناً ہیں 95 21
127 اصول:۴=عقل اور قوتِ عمل میں رابطہ حاکم اور محکوم کا ہے ۔قوتِ عمل عقل کے لئے وہی درجہ رکھتی ہے جو قلم کاتب کے لئے 95 21
128 اصول:۵=جو چیز کسی کے حق میں خدا نے اول سے نافع پیدا کی ہے،وہ اُس کی رغبتِ طبع ہو تی 96 21
129 رغبت کی مثال 97 21
130 نفر ت کی مثال 97 21
131 اصولِ فطرت کی حقیقت اور عقلِ سلیم 97 21
132 کامل العقل کی اہمیت اور ضرورت 97 21
133 اصول:۶= کامل طبیبِ روحانی کے نسخہ میں کمی بیشی جائز نہیں 98 21
134 اِس بات کو یاد رکھنا چا ہیے کہ بہت کارآمد ہے 98 21
135 اصول:۷= کوئی طبیبِ روحانی اگر ایسی بات بتلائے کہ اُس کا ہو نا بہت سے 98 21
136 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔اصول:۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
137 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔ 98 21
138 ۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
139 اصول:۱۰=دینِ حق کے کر نے نہ کرنے کی باتیں وہی ہیںجن سے عقلِ صاف او رروح پا ک کو رغبت یا نفرت ہو 98 21
140 اصول:۱۱= دینِ حق مرغو بِ طبع ہو تا ہے 99 21
141 اصول:۱۲=روح کو بدن پر ہر بات میں قیاس نہیںکیا جا سکتا 100 21
142 اصول:۱۳= طبیعت کی رغبت کا اثر تب ہی ظا ہر ہو گا جب کہ مانع نہ ہو 100 21
143 دینِ حق جب مرغوبِ طبیعت ٹھہرا،تو طبیعت کے موافق عمل درآمد کرنا چا ہیے؟ 101 21
144 امراضِ روحانی کو مرض نہ سمجھنے کی مثالیں 101 21
145 مثال(۱)معاشرتی امراض(Social diseases) 102 21
146 مثال(۲):نسلوں اور قوموں کے امراض 102 21
148 مثال(۳)امراض پیشہ(Occupation) 102 21
149 مثال(۴)امراضِ عادات(Habbitual diseases) 102 21
150 مثال(۵)موروثی(Heriditary) 102 21
151 تبدیلیٔ زمانہ سے احوال و احکام میں تبدیلی 102 21
152 اصول:۱۴=ہر عمل کسی نہ کسی مرتبے کا حسن و قبح رکھتا ہے 103 21
153 اختتامی التماس 104 21
Flag Counter