Deobandi Books

الامام محمد قاسم النانوتوی کی فکر اور بدلتے حالات میں مدارس کی تر جیحات

96 - 104
قلم اور بسولے کے ٹوٹنے سے بہ ظاہر اِنہی کا نقصان دکھا ئی دیتا ہے،لیکن۔ف) نفع نقصان ،بعد غور کے یوں معلوم ہو تا ہے کہ راحت و رنج سے بھی تعلق رکھتا ہے۔قلم اور بسولا اِن دونوں سے پاک ہیں۔ اِسی طرح قوتِ عمل جو کچھ کام کرتی ہے ،حقیقت میں اپنے لیے نہیں کرتی ؛بلکہ اصل میں ..(تمام)عقل کا،یا (اُس۔ف)جان کا -کہ جس کے سا منے عقل بمنزلۂ وزیر،مشیر کے ہے۔.نفع نقصان ہو تا ہے۔‘‘
’’الغرض طرفین (عقل اور قوتِ عمل ۔ف)میں سے اِس طرح کا رابطہ مستحکم ہے کہ ہر ایک کو دوسرے کا اثر پہنچتا ہے۔قوتِ عمل اور اُس کے توابعین،یعنی بدن کے اجزاء پرتو عقل اور جان کی کم سے کم حکومت کا اثر پڑتا ہے یعنی قوتِ عمل عقل کے اشاروں پر چلتی ہے۔جیسے قلم پر کاتب کا یہ اثر پڑتا ہے کہ بے اختیار ہلنے لگتا ہے۔اور کبھی اِ س سے زیادہ بھی ہوتا ہے جیسے غصے کے وقت چہرے کا تمتمانا اور آنکھوں کا سرخ ہو جانا،اور خوف کے وقت تھرتھرا نا اور رنگ کا اڑنا۔ (مگر یہ با ت اپنی جگہ پر درست ہو نے کے با وجود کہ قوتِ عمل عقل کے اشاروں پر چلتی ہے، اور اِس کے با وجود کہ طبعیاتی تو جیہ میں اِسے اِنفعالاتِ نفسانی کا اثر قرار دیا جا تا ہے ،جس میں روح نفسا نی بیرونی جانب حرکت کر تی ہے اور جدید کیمیاوی تحریکات کے تناظر میں بعض کیمیکل ہو تے ہیں جو Neurotransmitters کہلا تے ہیں،مثلاً مذکورہ صورتوں میں prostaglandine کاترشح بڑھ جا تا ہے ،لیکن یہ بے اختیار ہلنا،تمتمانا اور تھرتھرانے کا عمل۔ف) غور سے دیکھئے ،تو یہ اثر کچھ فرماں برداری کی قسم میں سے نہیں ؛بلکہ یہ تعلق اور رشتہ داریٔ پنہانی کا اثر ہے(۱) حکومت کا نہیں۔حکومت کے وا سطے ارادہ لازم ہے۔(جب کہ مذکورہ اثرات ارادی نہیں ہیں؛بلکہ غیر ارادی ہیں۔ف)اِس ( غیر ارادی ۔ف)کی تو ایسی مثال ہے جیسے کوئی لرزتے ہو ئے ہاتھ میں قلم پکڑے،تو بے شک وہ قلم بھی(بے ارادہ) اُسی طرح ہلے گا،مگر یہ اُس قسم کا ہلنا نہیں کہ(جو ارادی حرکت میں۔ف) لکھتے وقت اُس کو ہلا تے ہیں۔ ا،سی طرح قوتِ عمل کی جا نب سے بھی عقل اور روح کو دو طرح کا اثر پہنچتا ہے:
(۱)ایک تو وہی(روحانی۔ف)نفع، نقصان کہ جس کے لیے جان و عقل کی قوتِ عمل کی حکمرا نی تھی(جسے پہلے بتا یا جا چکا ہے۔ف)
(۲)دوسرے وہ رنج و راحت،جو کیفیاتِ بدنی سے بے اختیار عقل و روح کو حاصل ہو تے ہیں۔پاخانہ،پیشاب،میل کچیل،کے وقت جو نفیس طبعوں کو جو کدورت اور بخار و دردِ سر وغیرہ میں جو روح کو کلفت ہو تی ہے اور بدن کی صفائی کی لذت اور عافیت،سب اِسی قسم سے ہیں۔اِن سب صورتوں میں عقل و روح کی حکومت کو کچھ دخل نہیں۔ (بلکہ یہ بھی اُسی تعلق اوررشتہ داریٔ پنہانی کا اثر معلوم ہو تاہے۔ف)بالجملہ،جیسے دو قسم کے اثر عقل و روح سے قوتِ عمل کی جانب آتے ہیں،اِسی طرح دو قسم کے نفع، نقصان اِس طرف سے عقل و روح کو پہنچتے ہیں۔
(نفع، نقصان کے مذکورہ معیار کے علاوہ ہر معیار ہیچ ہے،کیوں کہ۔ف)ما سوا اِس کے عالم میںجس طرف نظر ڈالتے ہیں،اِختلافِ طبائع اِس قدر نظر آتا ہے کہ اختلافِ مذاہب بھی اُس کے سا منے گرد ہے۔ایک چیز اگر ایک کے حق میں موجبِ حیات ہے،تو دوسرے کے لیے وہی سانانِ ممات ہے۔(مثلاً):جو ہوا کے دم بھرتے ہیں،اور سانس لے کر جیتے ہیں،پانی سی نفیس چیز میں-کہ جس کا قطرہ قطرہ،حیواناتِ ہوائی کے حق میں بھی گوہرِبے بہا ہے-تھوڑی سی دیر میں غرقِ آب،فنا ہو جا ئیں ۔اورمچھلی وغیرہ دریائی جانوروں کی ہوا میں دو چار ساعت میں جان ہوا ہو جا ئے۔الغرض،اگر ایک شی ایک کے لیے نافع ہے،تو دوسرے کے واسطے وہی مضر ہے۔ہر ایک کے نافع اور مضر جدا جدا ہیں۔اِس قیاس پرروح اور عقل کے نافع اور مضر بھی بلا شبہہ جدا (جدا)ہوں گے۔‘‘
اصول:۵=جو چیز کسی کے حق میں خدا نے اول سے نافع پیدا کی ہے،وہ اُس کی رغبتِ طبع ہو تی
 ہے اورکسی سبب ِخارجی سے اُس سے متنفر ہو جا ئے،تو اُس کا اِعتبار نہیں۔ اسی طرح جو چیز کسی 
کے لیے خدا ئے علیم نے موجبِ نقصان بنا ئی ہے،اُس سے بالطبع نفرت ہوا کرتی ہے
  Scientific methodیعنی حواس یا حسیات کے ذریعہ حقائق کا اِدراک :

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 فہرست مضامین 3 1
3 باب-۱=ام المدارس دار العلوم دیوبند کے موسسین کا امتیازی وصف اور اُن کے مقاصد عالیہ 7 1
4 باب-۲=نیچریت (Naturalism) 10 1
5 باب-۳=فکر دیو بند،تحریک علی گڑھ اورتشکیلِ ندوہ 18 1
6 باب-۴=نصابِ تعلیم 28 1
7 باب۵=معقولات کے داخلِ درس ہونے پر اعتراضات 38 1
8 باب ۶=چند دیگرمفکرین 54 1
9 باب۷=نصاب تعلیم کے حوالہ سے بعض درد مندوں کے اِضطرابات 58 1
12 باب-۸=دیوبند میں حضرت نا نوتویؒ کے رائج کردہ نصا بِ تعلیم پر ایک نظر(اشارات) 61 1
13 باب۹=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت:افکار جدیدہ کے تناظر میں 65 1
14 باب۱۰=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت(اشارات) از. الامام محمد قاسم نا نوتویؒ 70 1
15 باب ۱۱=معقولات اور فلسفہ کی تعلیم اورزمانۂ حال کے اربابِ درس کا اضطراب 75 1
16 باب ۱۲=عصر حاضر میں معقولات و فلسفہ کی شدید ضرورت 78 1
17 باب ۱۳=اصولِ قاسم اور اہلِ مدارس کے تحفظات 79 1
18 باب ۱۴=درسی کتابوں کا طریقۂ تدریس از۔ حکیم الامت مولا نا اشرف علی تھانوی 80 1
19 باب ۱۵=معقولات و فلسفہ کا اِطلاقی پہلو 83 1
20 باب -۱۶= اہل علم کی خدمت میں 88 1
21 باب ۱۷=علوم جدیدہ کا پیدا کردہ مسئلۂ خیر و شر 91 1
25 الف =نیچریت کا پس منظر 10 4
27 ’’انسانیت(Humanism)‘‘ کی حقیقت 10 4
28 ۲-ب= نیچریت کا مفہوم و مصداق اور متعدد شکلیں 12 4
29 حقیقت پسندی (Realism) 13 4
31 افادیت پسندی(Utility) 13 4
32 ندوہ کا منشور 19 5
34 التباساتِ فہد 20 5
35 (۱)مصلحین امت کی تعیین میں خلط 20 5
36 (۲)فاسد اصولوں کے انتساب میں تلبیس 20 5
37 (۳)اعتقادی اجزاء میں خلط و تلبیس 20 5
38 (۴)شعور سر سید کی وضاحت میں تلبیس 21 5
39 (۵)شعورقاسم کے تعارف میں خیانت 22 5
40 استدراک 22 5
41 ناظمِ دینیات کے فرائض مقرر کردہ سرسید احمد خاں 22 5
42 سرسید کی رواداری کا اصل منشا 22 5
43 مدرسۃ العلوم میں دینیات کی تعلیم اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ 23 5
44 مدرسۃ العلوم کی بنیاد اورحضرت مو لانا رشید احمد گنگو ہی،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کو شرکت کی دعوت 24 5
45 سر سید کے قاصد اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کی گفتگو 25 5
46 قاصد کا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کو مشورہ اور حضرتؒ کا جواب 25 5
47 یہ جواب کوئی عارف ہی دے سکتا تھا 25 5
48 دو شعور= شعور قاسم اورشعور سر سید 25 5
49 ۴ -جزئ اول=ادب،تاریخ ، اور مغربی عقلیت 29 6
50 ۴ -الف=ادب 29 6
51 ۴-ج=مغربی عقلیت 33 6
52 ۴-جزئِ دوم =تاریخ، ادب و عقلیت میں مغربی اصولوں کی تقلید کرنے والے چند اہم مفکرین 34 6
53 (۱) خواجہ الطاف حسین حالی 34 6
54 (۲)شمس العلماء شبلی نعمانی 35 6
55 (۳)محقق عبد الماجد دریابادی 35 6
57 (۱)سر سید(۲)علامہ شبلی 38 7
58 (۳)نصابِ تعلیم اورعلامہ سید سلیمان ندویؒ 39 7
59 (۴)نصابِ تعلیم اور جناب ابو الکلام آزاد 39 7
60 (۵)جناب سید سلمان حسینی ندوی او ر نصاب تعلیم 40 7
61 اضطرابات سلمان حسینی بشکلِ التباسِ فکری 42 7
73 مدیر ’’ الشریعۃ‘‘ 54 8
74 (۲)منتسبینِ قاسم 54 8
75 (۱)مولانا عبد العلی فاروقی لکھنوی زید مجدہ ۔ مدیر البدر 58 9
76 (۲)جناب ندیم الواجدی صاحب -مدیر ترجمانِ دیو بند 59 9
77 دیوبند میں ’’مروجہ نصابِ تعلیم‘‘ کی تجویز اور اس کی حکمت: 62 12
78 نصابِ درس کی خوبیاں 63 12
79 نصابِ درس کے وہ اہم امور جن پر سب سے زیادہ غم و غصہ ہے 64 12
80 جدید فلاسفی کی شاخیں اور جدید فلاسفرز 66 13
81 تحلیلی فلاسفی( Analytic philosophy) اور معروضی فلاسفی (Objectivism) 67 13
82 معروضی مطالعہ کی ترجیح-ایک لمحۂ فکریہ 68 13
83 این المفر =منطق سے فرارممکن نہیں 68 13
84 کیا منطق اور فلسفہ سے شغف رکھنے والے علوم نقلیہ سے بے زار ہو جاتے ہیں؟ 72 14
85 کیا اکابر سے منطق اور معقولات کی مذمت منقول ہے؟ 72 14
86 فلسفہ اور معقولات میں ا کابر وسلف کی مہارت 73 14
87 اضطراب اعجازی کی توجیہ 75 15
88 قول صائب : مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ ا ﷲ کی آپ بیتی 76 15
89 (الامام محمد قاسم النانوتوی اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے کلام کی روشنی میں) 78 16
90 (جامع معقول و منقول مولانا ریاست علی ظفر بجنوری مد ظلہ کی تنبیات کی روشنی میں ) 79 17
91 حلِّ مطالب پر اِکتفا کرنا چا ہیے،غیر ضروری تقریر مناسب نہیں 81 18
92 استاذ کے لیے بات کی پَچ مناسب نہیں 81 18
93 مولانا یعقوب صاحب رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
94 حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
95 محققین اکابررحمۃ ا ﷲ علیہم کے درس کی خصوصیت 82 18
96 استاذ کے لیے قابلِ لحاظ امر 82 18
97 اِستعداد کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ 82 18
98 اِستعداد کے موانع 82 18
99 زبان کھل جائے،بولنے کا عادی ہو جائے،اِس کا انتظام 82 18
100 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۱) 83 19
101 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۲) 83 19
102 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۳) 84 19
103 منطق کے بغیر آدمی درسیات پڑھا نہیں سکتا (حضرۃالاستاذعارف با ا ﷲ مولانا صدیق احمد صاحب رحمہ ا ﷲ ) 84 19
104 آپ بیتی: از مولف -فخر الاسلام 84 19
105 علومِ عالیہ کے لیے علومِ آلیہ کی ضرورت ہے 85 19
106 دور جدید میں جن حضرات سے دین کو نفع ہوا،وہ معقول ہی کی بدولت ہوا 85 19
107 مدارس کو اصول صحیحہ سے سروکار ہے ،محض جدید کا رعب کافی نہیں 86 19
108 نصابِ قدیم وجدید کی آویزش کا نتیجہ 87 19
109 خرابی کااصل سبب بزرگوں کے طریق سے بے نیازی 87 19
110 ۱۶-الف=گفتگوکا سرسری جا ئزہ (تلخیص) 88 20
111 ۱۶-ب=مشورے ، گزارشیں اور تجویزیں 89 20
112 (۱)اسلام پر پڑنے والے شبہات کے ازالہ کے لیے تجویز 89 20
113 (۲)چند مسئلوں کو جانچنے کی تجویز 90 20
114 ۱۷-الف= عقلی استدلال 91 21
115 ۱۷-ب=خیر و شر،بھلائی-برائی کا اصول اہلِ مغرب کی نظر میں 91 21
116 ۱۷-ج=خیر و شر،بھلائی-برائی کا معیار از الامام محمد قاسم النانوتویؒ 92 21
117 خیر و شر کا محسوساتی معیار: 92 21
118 خیر و شر کا عقلی معیار 92 21
119 اصول:۱=’’عقل موجدِ معلومات نہیں مخبر معلومات ہے‘‘ 93 21
120 باریک فرق معلوم کرنے کا مسئلہ،اور عقل کے التباسات 93 21
121 اصول:۲=جو چیز مطلوبِ اہم اور اور مقصودِ اعظم ہو تی ہے،اُسی پر بھلائی،برا ئی کا اِنحصار ہو تا ہے 94 21
122 نیک و بد،بھلا،برا ،خیر و شرکے ا طلاقات 94 21
123 جس بات پر انسان کی بھلائی برائی موقوف ہے،اُس کے دریافت کرنے کا طریقہ: 94 21
124 اصول:۳=انسان کا مقصودِ اہم اور مطلبِ اعظم نفع کے کام کر نا اور نقصان کے کا موں سے بچنا ہے 94 21
125 انسان کے اجزاء ترکیبیہ 95 21
126 نتیجۂ بحث:بعضے کام بھلے اور بعضے برے یقیناً ہیں 95 21
127 اصول:۴=عقل اور قوتِ عمل میں رابطہ حاکم اور محکوم کا ہے ۔قوتِ عمل عقل کے لئے وہی درجہ رکھتی ہے جو قلم کاتب کے لئے 95 21
128 اصول:۵=جو چیز کسی کے حق میں خدا نے اول سے نافع پیدا کی ہے،وہ اُس کی رغبتِ طبع ہو تی 96 21
129 رغبت کی مثال 97 21
130 نفر ت کی مثال 97 21
131 اصولِ فطرت کی حقیقت اور عقلِ سلیم 97 21
132 کامل العقل کی اہمیت اور ضرورت 97 21
133 اصول:۶= کامل طبیبِ روحانی کے نسخہ میں کمی بیشی جائز نہیں 98 21
134 اِس بات کو یاد رکھنا چا ہیے کہ بہت کارآمد ہے 98 21
135 اصول:۷= کوئی طبیبِ روحانی اگر ایسی بات بتلائے کہ اُس کا ہو نا بہت سے 98 21
136 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔اصول:۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
137 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔ 98 21
138 ۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
139 اصول:۱۰=دینِ حق کے کر نے نہ کرنے کی باتیں وہی ہیںجن سے عقلِ صاف او رروح پا ک کو رغبت یا نفرت ہو 98 21
140 اصول:۱۱= دینِ حق مرغو بِ طبع ہو تا ہے 99 21
141 اصول:۱۲=روح کو بدن پر ہر بات میں قیاس نہیںکیا جا سکتا 100 21
142 اصول:۱۳= طبیعت کی رغبت کا اثر تب ہی ظا ہر ہو گا جب کہ مانع نہ ہو 100 21
143 دینِ حق جب مرغوبِ طبیعت ٹھہرا،تو طبیعت کے موافق عمل درآمد کرنا چا ہیے؟ 101 21
144 امراضِ روحانی کو مرض نہ سمجھنے کی مثالیں 101 21
145 مثال(۱)معاشرتی امراض(Social diseases) 102 21
146 مثال(۲):نسلوں اور قوموں کے امراض 102 21
148 مثال(۳)امراض پیشہ(Occupation) 102 21
149 مثال(۴)امراضِ عادات(Habbitual diseases) 102 21
150 مثال(۵)موروثی(Heriditary) 102 21
151 تبدیلیٔ زمانہ سے احوال و احکام میں تبدیلی 102 21
152 اصول:۱۴=ہر عمل کسی نہ کسی مرتبے کا حسن و قبح رکھتا ہے 103 21
153 اختتامی التماس 104 21
Flag Counter