قلم اور بسولے کے ٹوٹنے سے بہ ظاہر اِنہی کا نقصان دکھا ئی دیتا ہے،لیکن۔ف) نفع نقصان ،بعد غور کے یوں معلوم ہو تا ہے کہ راحت و رنج سے بھی تعلق رکھتا ہے۔قلم اور بسولا اِن دونوں سے پاک ہیں۔ اِسی طرح قوتِ عمل جو کچھ کام کرتی ہے ،حقیقت میں اپنے لیے نہیں کرتی ؛بلکہ اصل میں ..(تمام)عقل کا،یا (اُس۔ف)جان کا -کہ جس کے سا منے عقل بمنزلۂ وزیر،مشیر کے ہے۔.نفع نقصان ہو تا ہے۔‘‘
’’الغرض طرفین (عقل اور قوتِ عمل ۔ف)میں سے اِس طرح کا رابطہ مستحکم ہے کہ ہر ایک کو دوسرے کا اثر پہنچتا ہے۔قوتِ عمل اور اُس کے توابعین،یعنی بدن کے اجزاء پرتو عقل اور جان کی کم سے کم حکومت کا اثر پڑتا ہے یعنی قوتِ عمل عقل کے اشاروں پر چلتی ہے۔جیسے قلم پر کاتب کا یہ اثر پڑتا ہے کہ بے اختیار ہلنے لگتا ہے۔اور کبھی اِ س سے زیادہ بھی ہوتا ہے جیسے غصے کے وقت چہرے کا تمتمانا اور آنکھوں کا سرخ ہو جانا،اور خوف کے وقت تھرتھرا نا اور رنگ کا اڑنا۔ (مگر یہ با ت اپنی جگہ پر درست ہو نے کے با وجود کہ قوتِ عمل عقل کے اشاروں پر چلتی ہے، اور اِس کے با وجود کہ طبعیاتی تو جیہ میں اِسے اِنفعالاتِ نفسانی کا اثر قرار دیا جا تا ہے ،جس میں روح نفسا نی بیرونی جانب حرکت کر تی ہے اور جدید کیمیاوی تحریکات کے تناظر میں بعض کیمیکل ہو تے ہیں جو Neurotransmitters کہلا تے ہیں،مثلاً مذکورہ صورتوں میں prostaglandine کاترشح بڑھ جا تا ہے ،لیکن یہ بے اختیار ہلنا،تمتمانا اور تھرتھرانے کا عمل۔ف) غور سے دیکھئے ،تو یہ اثر کچھ فرماں برداری کی قسم میں سے نہیں ؛بلکہ یہ تعلق اور رشتہ داریٔ پنہانی کا اثر ہے(۱) حکومت کا نہیں۔حکومت کے وا سطے ارادہ لازم ہے۔(جب کہ مذکورہ اثرات ارادی نہیں ہیں؛بلکہ غیر ارادی ہیں۔ف)اِس ( غیر ارادی ۔ف)کی تو ایسی مثال ہے جیسے کوئی لرزتے ہو ئے ہاتھ میں قلم پکڑے،تو بے شک وہ قلم بھی(بے ارادہ) اُسی طرح ہلے گا،مگر یہ اُس قسم کا ہلنا نہیں کہ(جو ارادی حرکت میں۔ف) لکھتے وقت اُس کو ہلا تے ہیں۔ ا،سی طرح قوتِ عمل کی جا نب سے بھی عقل اور روح کو دو طرح کا اثر پہنچتا ہے:
(۱)ایک تو وہی(روحانی۔ف)نفع، نقصان کہ جس کے لیے جان و عقل کی قوتِ عمل کی حکمرا نی تھی(جسے پہلے بتا یا جا چکا ہے۔ف)
(۲)دوسرے وہ رنج و راحت،جو کیفیاتِ بدنی سے بے اختیار عقل و روح کو حاصل ہو تے ہیں۔پاخانہ،پیشاب،میل کچیل،کے وقت جو نفیس طبعوں کو جو کدورت اور بخار و دردِ سر وغیرہ میں جو روح کو کلفت ہو تی ہے اور بدن کی صفائی کی لذت اور عافیت،سب اِسی قسم سے ہیں۔اِن سب صورتوں میں عقل و روح کی حکومت کو کچھ دخل نہیں۔ (بلکہ یہ بھی اُسی تعلق اوررشتہ داریٔ پنہانی کا اثر معلوم ہو تاہے۔ف)بالجملہ،جیسے دو قسم کے اثر عقل و روح سے قوتِ عمل کی جانب آتے ہیں،اِسی طرح دو قسم کے نفع، نقصان اِس طرف سے عقل و روح کو پہنچتے ہیں۔
(نفع، نقصان کے مذکورہ معیار کے علاوہ ہر معیار ہیچ ہے،کیوں کہ۔ف)ما سوا اِس کے عالم میںجس طرف نظر ڈالتے ہیں،اِختلافِ طبائع اِس قدر نظر آتا ہے کہ اختلافِ مذاہب بھی اُس کے سا منے گرد ہے۔ایک چیز اگر ایک کے حق میں موجبِ حیات ہے،تو دوسرے کے لیے وہی سانانِ ممات ہے۔(مثلاً):جو ہوا کے دم بھرتے ہیں،اور سانس لے کر جیتے ہیں،پانی سی نفیس چیز میں-کہ جس کا قطرہ قطرہ،حیواناتِ ہوائی کے حق میں بھی گوہرِبے بہا ہے-تھوڑی سی دیر میں غرقِ آب،فنا ہو جا ئیں ۔اورمچھلی وغیرہ دریائی جانوروں کی ہوا میں دو چار ساعت میں جان ہوا ہو جا ئے۔الغرض،اگر ایک شی ایک کے لیے نافع ہے،تو دوسرے کے واسطے وہی مضر ہے۔ہر ایک کے نافع اور مضر جدا جدا ہیں۔اِس قیاس پرروح اور عقل کے نافع اور مضر بھی بلا شبہہ جدا (جدا)ہوں گے۔‘‘
اصول:۵=جو چیز کسی کے حق میں خدا نے اول سے نافع پیدا کی ہے،وہ اُس کی رغبتِ طبع ہو تی
ہے اورکسی سبب ِخارجی سے اُس سے متنفر ہو جا ئے،تو اُس کا اِعتبار نہیں۔ اسی طرح جو چیز کسی
کے لیے خدا ئے علیم نے موجبِ نقصان بنا ئی ہے،اُس سے بالطبع نفرت ہوا کرتی ہے
Scientific methodیعنی حواس یا حسیات کے ذریعہ حقائق کا اِدراک :