بیسویں صدی میں جدید فلسفہ کی جو تحریک اٹھی ہے ،اُس کے تحت یہ امر تسلیم کیا جا چکا ہے کہ فلاسفی کو،منطقی اصولوں،منطقی طریقۂ استدلال اور منطقی ترتیبِ مقدمات پر مبنی ہو نا چا ہیے۔یہی طریقۂ کار ہے جس سے خیالات و نظریات کی تحقیق کی جانی چاہیے اور اِسے ماڈرن سائنس کی کامیا بی میں ،اُس کے ساتھ بطور جزوِ لاینفک کے شامل و داخل رہنا چا ہیے۔(دیکھئے انٹرنیٹ:A quick history of philosophy-by movement)مطلب یہ ہے کہ سائنس کو اِدھر نہ لائیے؛بلکہ اِس معقولات و منطق کی ضرورت اہلِ سائنس کو ہے،وہ اِس باب میں کتنے سنجیدہ ہیں،یہ اُن کا مسئلہ ہے۔
گزشتہ بیان میں جن فلسفیوں کا ذکر کیا گیا ،اُن میں اکثر سائنس داں بھی ہیں،اور اپنے وقت کے بڑے محقق،مفکر اور ورساٹائل جینیس ہیں۔اِن کی پھیلائی ہوئی گمراہی تمام تر عقل اور فلسفہ کی راہ سے ہے؛بلکہ جو خالص سائنس داں کہلاتے ہیں،اُن کی طرف سے پیش کی گئی مزاحمتیں بھی عقل اور فلسفہ کی راہ سے ہی ہیںہیں؛نیوٹن کی مثال اوپر گزر چکی ۔ اِن کی بڑھی ہوئی عقل اور بہکے ہوئے فلسفہ کا جواب صحیح عقل اور صحیح فلسفہ ہے؛جسے بطور اتمامِ حجت کے الامام محمد قاسم النانوتویؒ نے دو شکلوںمیں پیش کر دیا ہے۔(۱)درسیات کی تجویز کے ذریعہ،کہ جس سے سال بہ سال فارغین نکلتے رہیں،قوتِ مطالعہ سے فہم میں جلا پیدا کرتے رہیں،بوقتِ ضرورت مذہبِ غیر اور باطل نظریات پربھی نظر رکھیں ،اورمعا صر افکارکا جواب دیتے رہیں۔(۲)خود اپنی تصنیفات کے ذریعہ۔اور یہ تصنیفات کا حصہ تو ایسا ہے کہ درسیات سے فراغت کے بعد اِس موضوع سے مناسبت رکھنے والوں کے لیے سائنسی شبہات،علوم جدیدہ کے خلجانات اور دور حاضر کے تمدنی اصولوںکی مزاحمت سے عہدہ برآ ہونے کے لیے، اِس کے مطالعہ سے مفر نہیں۔اور اگر مسلمانوں کا تحفظ اور اُن کے خلجانات کا ازالہ مقصود ہے،توحکیم الامت حضرت تھانویؒ کی تصنیفات بالکل کا فی ہیں ۔الامام محمد قاسم النانوتویؒ نے فلسفہ کے صحیح استعمال سے اصولِ صحیحہ کی تدوین کر کے حق کی حفاظت کے لیے،جو لازوال کارنامہ انجام دیا ہے،وہ مطالعہ کرنے والے سے مخفی نہیں؛گویا قیامت تک کے لیے ایک حجت قائم کر دی ہے۔
مذکورہ فلسفیوں نے سائنسی بگاڑ میں سائنس کے خادم کی حیثیت سے خود کو پیش کیا ہے،جو دو ر حاضر میں دینی عقائد واحکام سے مزاحمت کا با عث ہوئے ہیں ۔اور جیسا کہ ذکر کیا گیا، یہ افکار اُسی زمانہ سے چلے آرہے ہیں جس زمانہ کے نصاب تعلیم کے متعلق جناب سلمان حسینی صاحب نے یہ فرما رکھا ہے کہ درسیات کے مضامین اُس وقت کی جدید دنیا کے خالص عصری اور اپ ٹو ڈیٹ مضامین تھے۔...‘‘تو اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اُن مضامین میں بیان کردہ اصول آج کی جدید دنیا کے خالص عصری اور اپ ٹو ڈیٹ مسئلوں اور مزاحمتوں کے لیے بھی کفایت کرجاتے ہیں،توجنابِ موصوف کو بھی قبول کر لینے میں عار نہ ہو گا۔لیکن اِسے پھر سے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں؛ یہ اپنے مقام پر ثابت شدہ ہے۔باقی یہ موضوع علم کلام سے متعلق ہے جس پر تفصیل کے ساتھ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے علم کلام جدید پر لکھی گئی اپنی کتاب ’’الانتباہات المفیدۃ عن الاشتباہات الجدیدۃ‘‘کے و جہ ِتالیف رسالہ میں تفصیل کے ساتھ کلام فر مایا ہے۔
آئندہ اوراق میں ہم معقولات و فلسفہ کی ضرورت خود حضرت نانوتویؒ کے قلم سے بھی پیش کیے دیتے ہیں