کے علم،یقین اور ایمان کا ذریعہ اِسی عقل کو سمجھتے ہیں۔‘‘ (علی گڑھ میگزین نمبر ۱۹۵۳-۱۹۵۵ء ص ۱۹۵)) پروفیسر خلیق احمد نظامی کی زبان میں :سر سید
’’پہلے ہندوستانی مسلمان ہیں جس نے اسلام کی نئی تعبیر کی ضرورت کو محسوس کیا۔‘‘(علی گڑھ میگزین نمبر ۱۹۵۳-۱۹۵۵ء ص۲۳ از خلیق احمد نظامی) اور
حفیظ مینائی کے الفاظ میں ’’مذہب کی ایک نئی تشریح و تعبیر جونئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق ہو‘‘، سر سید کی تحریک کا اہم نکتہ تھا۔‘‘
(علی گڑھ میگزین نمبر ۱۹۵۳-۱۹۵۵ء ص۲۵۸۔از حفیظ مینائی)
سر سید کے مغرب زدہ عقل کے ذریعہ تمام دینی امور کو جانچنے کا مقصد اُس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا تھا جب تک کہ اسلام کی نئی تشریح و تعبیر کے ساتھ نئے تصورِ فطرت پر مبنی ادب کا سہارا نہ لیا جائے،(جیسا کہ جدید ادب اور اُس کے پس منظر اور محرکات کا مطالعہ کر نے والوں سے یہ امر مخفی نہیں۔)قدیم معقولات پر مبنی استعداد اور عقل و فلسفہ کے صحیح اصول سر سید کے لیے سد راہ تھے۔روایتی ادب سے گریز اور مغربی اصولوں کی تقلید کا یہ اثر سر سید کے متبعین میں بھی تھا۔یہاں ہم ایسے چند لوگوں کی مثالیں ذکر کرتے ہیں۔
۴-جزئِ دوم =تاریخ، ادب و عقلیت میں مغربی اصولوں کی تقلید کرنے والے چند اہم مفکرین
(۱) خواجہ الطاف حسین حالی
اردو ادب میں تصور اجتماع کے تحفظ کی خاطر حالی نے مذہبیات میں جوبے چینی پیدا کیں،ان کی طرف ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں۔ ہندوستانی تہذیبی معاشرے میں،مغربی تقلید؛حالی کے اِس اعلان ’’اب آؤ پیرویٔ مغرب کریں‘‘سے شروع ہوئی اور اُس کے نتیجہ میںمشرقی روایت کی پا مالی دیکھ کر شاعر چکبست کو حالی سے سخت شکایت پیدا ہو ئی ۔انہوں نے حالی کے اِس شعرپر کہ:
دھونے کی ہے ،اے ریفارمر ،جا باقی
کپڑے پے ہے، جب تلک دھبا باقی
دھو،شوق سے کپڑے کو ،پہ اِتنا نہ رگڑ
دھبا رہے نہ کپڑے پہ، نہ کپڑا باقی
یہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’جو خیال اِن دو شعروں میں نظم کیا گیا ہے،وہ نہایت اعلی درجہ کا اصولِ علاج ظاہر کرتا ہے؛لیکن افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ مولا نا حالی نے ارد
و شاعری کی اصلاح میں اپنے اصولِ علاج کو ملحوظ نہیں رکھا۔(حالیؔ نے۔ف)اردو شاعری کے دامن پر جو داغ دھبے تھے،اُنہیں اِس طرح
صاف کرنے کی کوشش کی،کہ نہ داغ دھبے باقی رہے،نہ ہی دامن کا کوئی تار باقی رہا۔‘‘(دیکھئے:سر سید اور حالی کا نظریۂ فطرت ازڈاکٹر ظفر حسن ص۱۰۹)
یعنی ادب جس کی بنیاد ہر قوم اور ہر تہذیب میں اُس کی روایتوں پر ہو تی ہے،حالی نے مغرب پرستی کے زعم میں ’’آؤ اب پیروی مغرب کریں‘‘کے نعرے کے ساتھ،اردو کی بنیادوں کو ہی منہدم کر دیا۔اورجو رخ متعین کیا،اُس کا پس منظر اور پیش منظر دونوں خطر ناک اور اسلامی اصولوں کے کلی منافی ہے۔مزید وضاحت کے لیے دیکھنا چا ہیے پروفیسر محمد حسن عسکری کے وہ مضامین جو اُنہوں نے حالی،شبلی اور سرسید کے ادبی رجحانات کے متعلق تحریر فرمائے ہیں۔
اردو ادب کے حوالہ سے مغرب کی تقلید میں:
’’جس قسم کی فطرت پرستی حالیؔ کے پیشِ نظر تھی،وہ مغرب میں بھی تقریباً پندرہویں اور سولہویں صدی سے شروع ہو ئی،اور اُس کی آخری شکل بیسویں صدی کا ’
جدید ادب‘اور جدید مصوری ہے۔اِس تحریک(فطرت پرستی)کا بنیادی اصول یہ ہے کہ انسان کو سب سے بڑی حقیقت سمجھا جا تا ہے۔‘‘جب یہ تحریک شروع
ہو ئی ہے،تو اُس وقت اِسے یونانی تہذیب کی پیروی سمجھا جا تا تھا،اس لیے اُس دور سے منسوب ادب کو کلاسیکل ادب بھی کہا جا تا ہے۔
(دیکھئے:سر سید اور حالی کا نظریۂ فطرت ازڈاکٹر ظفر حسن ص۱۰۹)
اِنسان کو سب سے بڑی حقیقت سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے احکام سے صرف نظر کر کے ،انسان کے مفادات میں خود انسان ہی قوانین مرتب کرے گا،کسی ماورائی قانون اور خدائی حکم اُس میں داخل نہ ہو گا۔