نصابِ درس کے وہ اہم امور جن پر سب سے زیادہ غم و غصہ ہے
مگر گزشتہ بیان میں ،علامہ شبلی کے ہی حوالہ سے ہم بتلا چکے ہیں کہ مکتبِ دیوبند سے دوررہنے والوں کو یا دوسرے مکاتبِ فکر کی گھن گرج سے منفعل لوگوں کو جو سب سے زیادہ غم و غصہ ہے،وہ دو باتوں کو لے کر ہے:(۱)تاریخ،ادب ولٹریچر اور سائنس کا وہ حصہ،جسے وہ چاہتے ہیں ،نصاب میں داخل کیوں نہیں ہے،اُسے داخل ہونا چاہیے۔(۲)منطق، معقولات و فلسفہ کے وہ حصے جو ہماری پسند وخیالات سے موافقت نہیں کرتے، داخل کیوں ہیں ،اُنہیں خارج کر دیا جا نا چا ہیے۔ پہلے جزو کے متعلق خلجان کا زالہ کیا جا چکا ہے ۔البتہ؛دوسرے جزو کہ معقولات و فلسفہ کی اصل ضرورت کس مقصود کی خاطر ہے،اِس سے وہ ہنو زنا آشنا ہیں،نیز اِس کی ضرورت مقتضی ہے کہ نایک تیز روشنی اِس کی اہمیت پر ڈالی جائے ؛لہذا عرض ہے ۔حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒفرماتے ہیں:
’’.........بیرونی حملاتِ مذہبی کی مدافعات میں ،نیز احقاقِ حق و اِبطالِ باطل کی غرض سے بھی جو کہ اِشاعتِ اسلام کی لیے موقوف علیہ
ہے،بعض وقات دوسرے مذاہب پر مطلع ہو نا ضروری ہو تا ہے۔اسی طرح جن امورکو ثابت کرنا ضروری ہے،اُنہیں ثابت کرنے کے
لیے،اورجن امورکورد کرنا ضروری ہوتا ہے،اُنہیں رد کرنے کے لیے کچھ عقلی قوانین کی حاجت ہوتی ہے جس کی وجہ سے فلسفہ کے مبادی
اور مسائل فی لجملہ واقفیت شدید ضروری ہے ۔ ‘‘:(دیکھئے القاسم‘‘ذی قعدہ ۱۳۳۰ص۱۲)
در اصل مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے ماہنا مہ القاسم‘‘ذی قعدہ ۱۳۳۰ھ میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کا وہ مفصل مضمون شائع فرمایا تھا جسے حضرت تھانویؒ نے موتمر الانصار کے دوسرے اِجلاس میرٹھ ۱۷ ربیع الثانی ۱۳۳۰ھ میں خود پڑھ کر سنایا تھا۔ اِس خطاب کے ذریعہ حضرت تھانویؒ نے ندوہ جو علی گڑھ کے ہی خیالات کی تجدید اورنئی توسیع تھی، اور دیوبند کے نمائندہ اِجلاس میں (اور ممکن ہے علی گڑھ کے بھی نمائندے رہے ہوں)علم کلام کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ظاہر فر ما ئی ہے:(۱) علوم عقلیہ کی اہمیت و ضرورت (۲)دوسرے مذاہب پر مطلع ہو نا ۔(۱)حاشیہ:(۱)جو محض مطالعہ سے حاصل ہو سکتی ہے ۔اور یہ سب کے ذمہ ہے ،۔علوم درسیہ کیے حاملین کے ذمہ عقلی اصولوں سے جواب سمجھانا ہے،نہ کہ شبہات جمع کرنا۔ اس کا طریقۂ کار الانتباہات المفیدۃ ‘‘کے ’’وجہِ تالیفِ رسالہ‘‘ میں اور الافا ضات الیومیۃ عن الافادات ا لقومیۃ کے ملفوظات میں مذکور ہے۔اور ہم بھی اِس کا طریقہ،آئندہ ذکر کرنے والے ہیں۔ ٭ قابلِ غور امر یہ ہے کہ اِ س خطاب میں حضرتؒ نے علم کلام کے لیے علومِ جدیدہ کی ضرورتت کا ذکر نہیں فرمایا۔بلکہ علوم عقلیہ اور فلسفہ کو ہی ضروری قرار دیا۔وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ مسئلہ الامام محمد قاسم نانوتویؒ کی طرح حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے یہاں بھی بالکل بدیہی ہے کہ ’’شریعت علوم جدیدہ کی محتاج نہیں ہے۔‘‘