غور کرو،میں بھی غور کروں گا۔‘‘(ملفوظات حکیم الامت ج۱۵ مزید المجیدص۱۲۶،۱۲۷) ۔
محققین اکابررحمۃ ا ﷲ علیہم کے درس کی خصوصیت
تو گویا لمبی تقریر کے بجا ئے کتاب کے حل کرنے کا اِہتمام حضرت حکیم الامت رحمۃا ﷲعلیہ فرما یا کرتے تھے۔اور یہی طرز رہا ہے محققین اکابر کا کہ نفس مطلب سمجھ میں آجائے۔حضرت الاستاذمولانا صدیق احمد صاحب باندوی رحمۃ اﷲ علیہ اپنے متعلق فرما یا کرتے تھے کہ پڑھنے کے زمانہ میں عبارت حل کرنے کی کوشش کرتا اور کتاب کا نفس مطلب سمجھ لیتا اور بس۔اور اِسی طرح وہ درس بھی دیا کرتے تھے۔یہی خوبی استاذ مرحوم مولا نا انتظام حسین رحمہ اﷲ میں بھی تھی۔
استاذ کے لیے قابلِ لحاظ امر
’’زیادہ ذمہ دار بد استعدادی کا اساتذہ کا طرزِ تعلیم ہے۔رعایت ہی نہیں کرتے مخاطب کے مناسبت کی۔‘‘(ملفوظات حکیم الامت ج۱۷ حسن العزیز حصہ دوم ص۴۲۱)
میزان الصرف پڑھانے والا بھی عالم متبحر ہی ہونا چا ہیے۔یہ غلط ہے کہ ابتدائی کتابوں کے واسطے معمولی آدمی کو کافی سمجھا جا تا ہے۔لوگ سمجھتے ہیں میزان میں کیا رکھا ہے؟میں کہتا ہوں ابتدائی تعلیم(کے لیے)بڑی قابلیت کی ضرورت ہے۔(ملفوظات حکیم الامت جلد۴کلمۃ الحق ۱ ص ۲۶۳)
اِستعداد کس طرح پیدا ہوتی ہے؟
’’ایک طالبِ علم نے عرض کیا کہ میری سمجھ میں کتا بیں نہیں آتیں۔....بعد کو گفتگو سے معلوم ہوا کہ نفس مطلب سمجھ میں آ جا تا ہے۔فرما یا کہ بس یہ کا فی ہے کہ استاذ کی تقریر کے وقت نفس مطلب سمجھ میں آئے،چا ہے یاد رہے یا نہ رہے۔کتاب اگر حل ہو جا ئے انشاء اﷲ بعد ختم کے جب خود مطا لعہ کریں گے،استعداد ہو جا ئے گی ۔بے دل نہ ہو جا ئیے،یاد چاہے رہے یا نہ رہے،کچھ پرواہ نہ کیجئے۔‘‘(ملفوظات حکیم الامت ج۱۷ حسن العزیز حصہ دوم ص۲۱) ۔’’آپ پڑھا ہوا یاد رکھنے کی فکر میں نہ لگیں۔تجربہ ہے کہ اگر مطالعہ اپنے حد امکان کے موافق غور کر کے دیکھ لے اور استاذ کے سامنے سمجھ کر پڑھ لے،بس کا فی ہے،اگر چہ یاد نہ رہے۔آپ اس دستور العمل کو پیشِ نظر رکھ کر مطمئن رہئے،۔(ملفوظات حکیم الامت ج۲۷ ص۲۷) ۔احتیاج کے وقت سب مستحضر ہو جا ئے گا(ملفوظات حکیم الامت ج۱۳ ص۱۶۴) ۔
’’درسی کتابیں اگر سمجھ کر پڑھ لی جائیں،تو پھر کسی اِشکال کے جواب میں باہر جا نے کی ضرورت نہیں۔اِن میں سب کچھ ہے یہ ایسا قلعہ ہے کہ اِس میں ہر قسم کی رسد جمع ہے۔کھانا پینا بھی،ہتھیار بھی،گو لا بارود بھی۔اور درسی کتابیں پڑھ کر اگر کسی کو دوسرے علوم کی ضرورت اور محتاجی ہو،تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کتابیں سمجھ کر نہیں پڑھی جاتیں۔‘‘
اِستعداد کے موانع
’’تقریر کی فکر میں درسیات کا مطالعہ نہیں کرتے،مضمون ہی تلاش کرتے رہ جاتے ہیں،تعلیم مقصود چوپٹ ہو جاتی ہے۔
زبان کھل جائے،بولنے کا عادی ہو جائے،اِس کا انتظام :
اس لیے میں نے اپنے یہاں یہ انتظام کیا ہے کہ ا گر کوئی کافیہ پڑھنے والا ہے،تو کافیہ ہی کا کوئی مضمون دے دیا کہ اِس کی تقریر کرو۔اگر مشکوٰ ۃ پڑھ چکا ہے ،تو کوئی حدیث اُس وقت دے دی کہ اِس کی تقریر کرو۔اِس سے زبان بھی کھل جاتی ہے،یعنی بولنے کا عادی بھی ہوجا تا ہے،اور پڑھانے کا ڈھنگ بھی آ جا تا ہے۔‘‘(ملفوظات حکیم الامت جلد۴کلمۃ الحق ۱ ص ۲۰۴،۲۰۵)