۱۶-ب=مشورے ، گزارشیں اور تجویزیں
(۱)اسلام پر پڑنے والے شبہات کے ازالہ کے لیے تجویز
اِن سب اعتراض کرنے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ فنون عقلیہ،معقولات و فلسفہ بقول امام المتکلمین حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی اور حکیم الامت حضرت مولانا محمداشرف علی تھانوی حملاتِ مذہبی سے حفاظت کے لیے اور دفاعِ اسلام کی غرض سے رکھے گئے ہیں؛یہ اِن علوم کے درسیات میں شامل ہو نے کا مقصدِ اولیں ہے؛اِس کے علاوہ تشحیذ ذہن اور استعدادِ علوم عالیہ،یہ اِن کا ثانوی نفع ہے اور یہ بھی یقینی ہے۔اب یہاں ایک بات تو یہ عرض کرنا ہے کہ جو لوگ سائنس اور فلسفہ کی حقیقت جا نتے ہیں اور ساتھ ہی فنونِ درسیہ اور علوم عالیہ کی نوعیت سے بھی واقف ہیں،تو وہ یہ بھی جا نتے ہیں کہ فنونِ درسیہ اور علوم عالیہ کے ساتھ سائنس ایک قدم بھی نہیں چل سکتی،اس کی جو کچھ بھی چکا چوندھ ہے،وہ لے دے کرتمدن کی ترقی اور معاش و معاشرت کی سہولت و آسائش کی فراہمی اور خیالات میں انتشار ہے۔اِس کے بعد یہ عرض ہے کہ حملاتِ مذہبی سے حفاظت اور دفاعِ اسلام کے حوالہ سے عہد نانوتویؒسے لے کر آج تک جتنے شبہات اسلام پر ہو ئے ہیں یا ہو تے چلے جا رہے ہیں؛اصولی اور کلی طور پر اُنہیں تین بڑے عنوانات میں محصور کیا جا سکتا ہے:
(۱)سائنسی شبہات(۲) علومِ جدیدہ کی راہ سے پیدا ہو نے وا لے اعتراضات(۳)موجودہ تہذیب و تمدن کے قواعدسے مزاحمت کے نتیجہ میں راہ پا نے وا لے خلجا نات۔
اب اِن شبہات کا جواب دینے وا لے مفکروں کا بھی جا ئزہ لیجئے،اور دیکھئے کہ جنہوں نے دفاعِ اسلام کے جذبہ سے خدمت کی ہیں؛اُن میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں:(۱) اہل علم(۲)جدید تعلیم یافتہ۔
پھراہل علم میں بھی دو قسم کے لوگ ہیں:
(الف)جو درس نظامی میں فلسفہ اور معقولات کے مراحل سے گزرے ہیں۔(ب)جو تعلیم کے دوران میں فلسفہ اور معقولات کے مرحلہ سے نہیں گزرے۔
پھر اِن دونوں میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں:
(الف)جنہوں نے علوم جدیدہ یا سائنس کا علم خود حاصل نہیں کیا؛البتہ اُنہیں معلومات ہیں۔
(ب) جنہوں نے علوم جدیدہ کی کسی ایک شاخ کے کسی ایک مضمون کو،کالج میں داخلہ لے کر اپنا موضوع بنا یا ہے۔علوم جدیدہ کی دوسری شا خوں کے دوسرے موضوعات کے ضروری اصول اور مسائل سے اُنہیں واقفیت نہیں۔
اسی طرح جدید تعلیم یافتو ں میں بھی دو قسم کے لوگ ہیں:
(الف)ایک وہ جنہوں نے عربی علوم حاصل نہیں کیے،خواہ ایک سبجیکٹ کی حیثیت سے عر بی اُن کے پاس بی. اے ۔ ایم . اے .تک رہی ہو؛ کیوں کہ اِن کی واقفیت بالکل سرسری ہو تی ہے۔
(ب)دوسرے وہ جنہوں نے عربی علوم اور عربی ادب میں اِختصاص کیا ہے؛لیکن درسیات سے مس نہیں رکھتے۔
اِن سب طبقوں کو سامنے رکھ کر تجویز یہی دی جا سکتی ہے کہ :
جنہوں نے درسیات نہیں پڑھی ہے،اُن کے لیے تو یہ مشورہ ہے کہ حضرت نانوتویؒ کے تجویز کردہ نصاب کوخصوصا ًمعقولات،منطق اور فلسفہ پڑھ لیں،اورجنہوں نے پڑھ رکھی ہے،وہ ایک مرتبہ فلسفہ کی اُن کتابوں کا اِجراء کر لیں جو دیوبند کے قدیم نصاب میں داخلِ درس تھیں۔ متوازی مطالعہ کے طور پر حضرت نانوتویؒ اور حضرت تھانوی ؒ ہر دو بزرگ کی تٖصنیفات سے مدد لیں ۔سر سید کے افکار، شبلی اور اُن کے متبعین کی تحریریں بھی اُن کے سامنے ضرورر ہنی