’’جس وقت سر سید نے اِس علی گڑھ کالج کی بنیاد ڈالی تو انہوں نے اپنے ایک خاص معتمد کو گنگوہ بھیجا اِس کام کے لیے کہ حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ
سے ملاقات کر کے مولاناکویہ پیام پہنچاؤ کہ میں نے مسلمانوں کی فلاح اور بہبود و ترقی کے لیے ایک کالج کی بنیاد ڈالی ہے۔دوسری قومیں ترقی
کر کے بہت آگے پہنچ چکی ہیں،مسلمان پستی کی طرف جا رہے ہیں۔اگر آپ حضرات نے اِس میں میرا ہاتھ بٹایا تو میں بہت جلد اپنے مقصد
میں کامیاب ہو جاؤں گا ،جوحقیقت میں مسلمانوں کی کامیابی ہے غرضیکہ سفیروہ گنگوہ آئے اورحضرت مولانا کے پاس حاضر ہو کر بعد سلام مسنون------------------------------
جناب سید امداد العلی صاحب کی مذکورہ شرطوں کا انجام کیا رہا ،اس کا ذکرانہوںنے اپنے رسالہ’’نور الآفاق‘‘ میں کیا ہے:’’دربار دہلی میں سی۔ایس آئی سید احمد خاں بہادر نے امداد علی خاں بہادر ڈپٹی کلکٹر مراداباد سے بصدق دل یہ اقرار فر مایا کہ اب ہم کوئی مباحثۂ مذہبی تہذیب الاخلاق میں نہ چھا پیں گے۔جب بفضل اﷲ تعالی سید صاحب موصوف کو یہ خیال آیا اور اُن کا دل جانبِ حق میلان پا یا،پس اب ہم بھی نورا لآفاق کو موقوف کرتے ہیں کہ مقصود اصلی ہما را یہی تھا کہ حق ظاہر ہو جا وے اور حق تعالی اسلام کو اِغوائے فرقۂ نیچریہ سے بچا لے۔ ‘‘(ص۹،۱۰)
کے سر سید کا پیام عرض کیا۔حضرت مولانا نے سر سیدکا پیام سن کر فرما یا کہ بھائی ہم توآج تک مسلمانوں کی فلاح اوربہبود اور ترقی کا ز ینہ اﷲ اور
رسول کے اتباع ہی میں سمجھتے رہے؛مگر آج معلوم ہوا کہ اُن کی فلاح اور بہبود و ترقی کا زینہ اور بھی کو ئی ہے ،تو اِس کے متعلق یہ ہے کہ میری ساری عمر قال اﷲ و قال الرسول ﷺ میں گزری ہے۔مجھے اِن چیزوں سے زیادہ مناسبت نہیں۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کا نام لیا کہ
وہ ان باتوںمیں مبصر ہیں اُن سے ملو،وہ جو فرما ئیں گے ،اُس میں ہم اُن کی تقلید کر لیں گے،ہم تومقلد ہیں۔
سر سید کے قاصد اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کی گفتگو
یہ صاحب حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ سے ملے اور سر سید کا سلام پیام اورحضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ سے جو گفتگو ہو ئی تھی
اوراُس پر حضرت مولانا نے جو جواب دیا تھا،سب حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کو سنا دیا گیا۔حضرت مولانا نے سنتے ہی فی البدیہ
فرما یا کہ بات یہ ہے کا م کرنے وا لے تین قسم کے ہو تے ہیں:ایک وہ کہ اُن کی نیت تو اچھی ہے؛مگرعقل نہیں۔دوسرے وہ کہ عقل تو ہے ؛مگر نیت
اچھی نہیں تیسرے یہ کہ نہ نیت اچھی نہ عقل ۔سر سید کے متعلق ہم یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ نیت اچھی نہیں،مگر یہ ضرور کہیں گے کہ عقل نہیں۔اس لیے
کہ جس زینہ سے مسلمانوں کو وہ معراج ترقی پر لے جا نا چا ہتے ہیں،اور اُن کی فلاح اور بہبود کا سبب سمجھتے ہیں،یہ ہی مسلمانوں کی پستی کا سبب
اور تنزل کا باعث ہو گا۔
قاصد کا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کو مشورہ اور حضرتؒ کا جواب
اِس پر اُن( قاصد)صاحب نے عرض کیا کہ جس چیز کی کمی کی شکایت حضرت نے سر سید کے اندر فر مائی ہے،اُسی کو پورا کرنے کے لیے تو آپ حضرات کو شرکت کی دعوت دی جا رہی ہے،تاکہ تکمیل ہو کر مقصود انجام کو پہنچ جا ئے۔
یہ جواب کوئی عارف ہی دے سکتا تھا
یہ ایسی بات تھی کہ سوائے عارف کے دوسرا جواب نہیں دے سکتا تھا۔حضرت مولانا نے فی البدیہہ جواب فر مایا کہ سنۃ اﷲ یہ ہے کہ جس چیز کی بنا
ڈالی جاتی ہے،بانی کے خیالات کا اثر ساتھ ساتھ،اُس میں ضرور ہو تا ہے۔سو چوں کہ سر سید بنیاد ڈال چکے،اُن کے ہی خیالات کے آثار اس بنا
میں ضرور ظاہر ہوں گے۔اور اِس کی بالکل ایسی مثال ہے کہ ایک تلخ درخت کا پوداقائم کر کے ایک مٹکے میں شربت بھر کر اور ایک مالی کو وہاں بٹھلا کر ،
ان سے عرض کیا جا ئے کہ اس شربت کو اس درخت کی جڑ میں سینچا کرو۔سو جس وقت وہ درخت پھول پھل لا ئے گا،سب تلخ ہوں گے۔‘‘
(ملفوظات ج۵ ص۱۶۶،۱۶۷)
دو شعور= شعور قاسم اورشعور سر سید
۱پنے مضمون ’’علی گڑھ تحریک اورجامعہ ملیہ‘‘ میں جناب عابد اﷲ غازی لکھتے ہیں: