سے واقفیت ضروری ہے۔اور معقولی مسلمات کے ذریعہ دینی احکام کو ثابت کرنے سے عقلیت پرستوں کو تسکین ہو تی ہے اور وہ
منزلِ تسلیم سے آشنا ہو تے ہیں،تو کوئی وجہ نہیں کہ فلسفۂ جدیدہ یعنی سائنس کی بھی تعلیم ہمارے مدارس میں نہ ہو۔‘‘
مولانا کے اِس خیال میں اور علامہ شبلی و سید سلمان حسینی ندوی کے اِس بابت جو خیالات ہیں،اِن دونوں میں کچھ فرق نہیں ہے۔حیرت ہے کہ حفیدِ امام اہلِ سنت کے قلم سے فکرِ ندوہ کی ترجمانی کیسے ہونے لگی؟جب کہ امام اہلِ سنت رحمۃ اﷲ علیہ تو ندوہ کی انتظامی کمیٹی میں رہے؛لیکن کبھی اُن کے خیالات میں ندو ہ کا ضرر وشرر راہ نہ پا سکا۔حالاں کہ محقق دریابادی اِس باب میں اُن کی طرف سے رنجیدہ وافسردہ رہے کہ وہ شبلویت کے مخالف ہیں۔(۱)حاشیہ:(۱)دیکھئے مکتوباتِ ماجدی ،مکتوب بنام علی میاں)
مولانا نے اپنے مدعا کے اِثبات کے لیے قرآن کریم کی متعدد آیات (ابراہیم:۳۲،۳۳،۳۴؛مومنون:۱۴؛حدید:۲۵؛الروم:۴۸؛انبیاء ۳۰)بھی پیش کی ہیں،لیکن وہ دلائل نہیں ؛بلکہ محض مغالطے ہیںجس کے بہت سے لوگ شکار ہیں۔اِس مغالطہ کو حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے اس طرح دور فرما دیا ہے کہ:
’’ قرآن کریم نے توحید کا دعویٰ کیا اس کی دلیل ہے ان فی خلق السموت والارض الایہ ،جس کا مطلب یہ ہے کہ اس
کائنات میں بھی توحیدکے دلائل ہیںتو اس کائنات میں چند حیثیتیں ہیں اول ان کا دلیل توحیدہونا دوسرے ان کے پیدا
ہونے کے طریق اور تیسرے ان کے تغیرات کے ڈھنگ۔ قرآن کریم کو صرف پہلی حیثیت سے ان سے تعلق ہے اس کے
بعد اگرکوئی یہ سوال کرنے لگے کہ بادل کس طرح پیداہوتے ہیں اوربارش کیوںکر ہوتی ہے اوراس قسم کے حالات توقرآن
سے ان کا تلاش کرنا غلطی ہے (ضروت العلم) کیوں کہ اگر دلائل توحید میں سائنس کے مسائل مذکور ہوتے تو، توحیدکو
سمجھنا ان کے علم پر موقوف ہونا اور مسائل سائنس خودنظری ہیںتو، توحید بدوں ان کے سمجھے ہوئے ثابت نہ ہوتی اورمخاطب
ان دلائل کے عرب کے بادیہ نشین تک ہیں تو وہ توحید کو کیسے جانتے یہ نقصان ہوتا سائنس کے مسائل کو قرآن میںداخل
کرنے کا کہ اصل مقصود ختم ہوجاتا۔سائنس کے متعلق جو گفتگوہوگی محض اس قدرکہ یہ سب مصنوعات ہیں اورہر مصنوع
کے لئے ایک صانع کی ضرورت ہے لہٰذاان کے لئے بھی کسی صانع کی ضرورت ہے مگر استدلال کے لئے اس کی ضرورت
نہیں ہے کہ اس چیز کی حقیقت بھی دریافت ہو جائے بلکہ مجملاً ان کا علم ہونا کافی ہے۔‘‘
(اشرف التفاسیرمقدمہ از مفتی عبد الشکور ترمذی)
(۲)جناب ندیم الواجدی صاحب -مدیر ترجمانِ دیو بند
جناب ندیم الواجدی صاحب کا خیال یہ ہے کہ ایک درسگاہ:
’’ دارلعلوم ندوۃ العلماء ہے جسے مولانا علی میاں ندوی نے اسلام کی آئیڈیل درسگاہ بنا دیا ۔‘‘
اور دارالعلوم دیوبند کے متعلق انہوں نے یہ ضرو راعتراف کیا کہ:
’’ حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے ایسا نصاب تعلیم مرتب کیا تھا جس سے ہمارے بچے عالم،فاضل،فقیہ،محدث،مفسر اور متکلمِ اسلام
ہی نہیں؛پیر و مرشدکے مراتبِ عالیہ تک پہنچے۔‘‘
لیکن؛اب اُن کا خیال ہے کہ وہ حالات عہدِ نو آبادیات کے تھے۔لہذا الامام محمد قاسم نانوتویؒ کا مرتب کردہ یہ نصاب بھی:
’’اکیسویں صدی کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا۔‘‘
پھر کون سانصاب اکیسویں صدی کے تقاضے پورے کر سکتا ہے،اُس کی تجویز پیش کرتے ہوئے جن چیزوں کی موصوف نے سفارش کی ہے،اُن میں قابلِ غور یہ ہے کہ زور ’ادب عربی‘پر دیا ہے کہ’’روانی سے عربی بول اور لکھ سکتا ہو‘‘ ۔’ابتدائی منطق‘اور’’علم کلام کا ایک حصہ‘‘ پڑھانے کی سفارش کی ہے۔اس