’’ہر ہر چیز کی کم و بیش(کمی بیشی)دریافت کر نے کی ایک ترازو ہے۔سیاہ،سفید،اچھی بری شکل کے دریافت کر نے کے لئے تو آنکھ ترازو ہے۔اور اچھی بری آواز کی میزان،کان۔اور خوشبو اور بد بو کی،ناک۔اور میٹھے، کھٹے کے لئے زبان۔اور گرمی سردی کے لئے تمام بدن۔اور اِسی طرح اور ہزاروں ترازویں ہیں۔اِن سب سے فقط ایک تخمین کمی،بیشی کی معلوم(ہوتی) ہے۔مقدار ہر ایک کی اور نیز کمی بیشی کی مقدار اِن سے معلوم نہیں ہو تی۔اِس بات میں(تخمینی کمی،بیشی بتلا نے میں۔ف)یہ سب ترازویںکافی ہیں،بلکہ ایسی ہیں جیسے کو ئی ’’سیر ‘‘کے پتھر اور ’’دو سیر‘‘کے پتھر کو ہاتھ میں لے کر یہ بتلا ئے کہ اِس میں زیادہ وزن ہے،اِس میں کم۔تو فقط کمی بیشی معلوم ہو گی،حقیقت المال،یعنی کتنا یہ ہے اور کتنا یہ اور کیا اِن میں فرق ہے؟سو یہ بات بے ترازو کے معلوم نہیں ہو سکتی۔اور جن چیزوں میں تھوڑا بہت فرق ہو تا ہے،اُن کی کمی و بیشی بھی بے ترازو معلوم نہیں ہو تی۔جیسے ’’سیر بھر‘‘اور’’ پیسہ اوپر سیر‘‘(کہ اِس قدر باریک فرق میں۔ف)نہ اُن کی کمی بیشی بے ترازو معلوم ہو،نہ اُن کی مقدار بے ترازو معلوم ہو۔‘‘
’’سو ایسے ہی ہماری تمہاری عقل سے بھلائی اور برا ئی کی کمی بیشی وہاں ہی معلو م ہو تی ہے ،جہاں بہت فرق ہو۔پر تھو ڑے تھوڑے فرق اور اُن کی مقدار سے ہرگز دریافت نہیں ہو سکتی۔یہ بات بجز علمِ خداوندی کے اور کسی کا کام نہیں۔عقل بھی اُس درگاہ کی دریوزہ گر ہے۔کیوں کہ حقیقت عقل کی بعد غورکے یہ سمجھ میں آتی ہے کہ یہ ،دفتر علمِ اِلٰہی کا ایک محافظ دفتر ہے۔کیوں کہ کو ئی ایسی بات نہیں کہ جس میں عقل سے مشورہ نہ کر لیں۔اِس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ اِس کے پاس ہر بات کی کچھ نہ کچھ خبر ہے؛بلکہ سب خبر ہے۔‘‘(لہذا یہ وہی بتائے گی جو حکمِ خدا وندی ہو گا۔اور اگر غلط بتا رہی ہے،تو ضرور آلود عقل ہے؛عقلِ صاف نہیں ہے،کیوں کہ ’’عقل موجدِ معلومات نہیں،مخبرِ معلومات ہے‘‘۔ف)
اصول:۱=’’عقل موجدِ معلومات نہیں مخبر معلومات ہے‘‘
’’بے شک اگر خدا کی طرف سے کوئی حکم آتا ہے،تو اُسی کے کرنے نہ کرنے کا آتا ہو گا کہ جسے عقلِ صائب اور ذہنِ ثاقب،نافع یا مضر بتلا ئے اور اُس کے کرنے،نہ کرنے کی سوجھائے؛بلکہ غور سے دیکھئے،تو عقل ایک جامِ جہاں نمایا دور بیں،خورد بیں ہے کہ اُس سے ہر شے کی حقیقتِ اصلی اور فرقِ مراتب اُن کا معلوم ہو تا ہے۔اور ہر عمل کی ماہیت اور اصل کو واشگاف کر کے بتلا دیتی ہے۔‘‘
’’بہر حال،بعد غورکے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہ (عقل)دفتر علمِ اِلٰہی کا ایک محافظ دفتر ہے؛بلکہ اُس (علمِ اِلٰہی کے)دفتر کے حروف اور نقوش کے دریافت کرنے کی نظر ہے،جیسے دفترِ مُبصرات یعنی دیکھنے کی چیزوں کے لیے چشمِ ظاہری عنایت ہو ئی ہے،ایسے ہی اُس دفترِ پنہا نی(علمِ الٰہی)کی سیر کے لئے عقل جو ایک چشمِ پنہانی ہے،مرحمت ہو ئی ہے۔اور یہی وجہ معلوم ہو تی ہے کہ جیسے آنکھ سے چھوٹی، بڑی سب چیز کو مبصرات میں سے دیکھ سکتے ہیں،ایسے ہی عقل سے اُس دفتر کے تمام حروف اور نقوش کو دریافت کر سکتے ہیں۔یعنی کو ئی چیزایسی نہیں جس میں عقل سے مشورہ نہ کر سکیں۔‘‘(ص۸۶تا۹۴)
باریک فرق معلوم کرنے کا مسئلہ،اور عقل کے التباسات
اس کے بعد ما بینی فرق مراتب کی گفتگو کرتے ہیں:
’’اور جیسے سیاہ و سفید کا فرق مثلاً،آنکھ سے معلوم ہو سکتا ہے،ایسے ہی نیک و بد کا فرق دیدۂ عقل سے معلوم ہو سکتا ہے۔لیکن جیسے آنکھوں آنکھوں میں فرق ہے،سب سے یکساں فرق معلوم نہیں ہو تا؛بلکہ بسا اوقات اُلٹا معلوم ہو نے لگتا ہے۔احول،یعنی بھینگے کو ایک کے دو،اور یرقان والے کو سفید بھی زرد نظر آتا ہے،ایسے ہی ہر عقل سے نیک و بد کا فرق صحیح صحیح معلوم نہیں ہو سکتا ۔اور جیسے کم نظروں کو بعضے رنگ مثلا!:’’مکو ئی‘‘،’’عنابی‘‘،’’سیاہ‘‘سب ایک ہی نظر آتے ہیں،ایسے ہی کم عقلوں کو بہت سے امورِ نیک و بد سب یکساں معلوم ہو تے ہیں۔اور پھر جیسے کسی آنکھ میں یہ کمال ہے کہ رنگتوں کا فرقِ مراتب اور مقدارِ تفاوت ایسا دریافت کر لے کہ جس سے اُس کی نسبت بلا کم و کاست معلوم ہو جا ئے،یعنی یہ محقَّق ہو جا ئے کہ ایک سرخ چیز کی سرخی مثلاً ،دوسری سرخ چیز کی سرخی سے آدھی