ہے،یا تہائی ہے،یا ربع کی نسبت رکھتی ہے،ایسے ہی کسی عقل میں یہ بات نہیں کہ نیک وبد کا فرق ایسی طرح دریافت کر لے کہ آپس کا فرقِ مراتب اور مقدارِ تفاوت بہ طورِ مذکور دریافت کر سکے(کہ فلاں چیز میں خرابی ہے،تو کس درجہ کی ہے اور فلاں چیز میں اچھائی ہے،تو کس نسبت سے ہے۔ف )۔یہ بات خدائے تعالیٰ ہی کے ساتھ مخصوص معلوم ہو تی ہے۔ ‘‘(تقریر دل پذیرص۱۱۳تا ۱۱۵)
اصول:۲=جو چیز مطلوبِ اہم اور اور مقصودِ اعظم ہو تی ہے،اُسی پر بھلائی،برا ئی کا اِنحصار ہو تا ہے
’’اعمال میں نیک و بد کی تقسیم محض فضول ہونے کا اِشکال، جو دور حاضر کا سب سے بڑا اعتراض ہے۔اور راقم حروف کے علم و مطالعہ میں کسی محقق و مفکر کے ہاں عقلی قطعی اصلوں پر اِس کا جواب موجود نہیں ہے۔اِس کے یہ جواب تو دئے گئے ہیں کہ’’ خدا کی خدائی کا کمال ظہور نیک و بد کی تخلیق سے ہے‘‘پھر’’مخلوق کو خالق سے محاسبہ و مطالبہ کا اِختیار نہیں۔‘‘’’نیکی،نیکی اور بدی،بدی اُسی وقت ہیں جب اُن کی نسبت مخلوق کی طرف ہے۔‘‘لیکن یہ راز کاہے کو کسی نے کھولا ہوگا کہ:
’’تمام عالم کی اشیاء سے کئی کئی طر ح کے کام متعلق ہو تے ہیں لیکن’’ہر شے سے جو چیز مطلوبِ اہم اور مقصودِ اعظم ہو تی ہے،اُسی پر بھلائی،برا ئی کا اِنحصار ہو تا ہے۔‘‘حضرتؒ ہی کے قلم حقیقت رقم سے کسی قدر اختصار کے ساتھ مسئلہ کی وضاحت درج کی جا تی ہے۔‘‘(ص۱۳۷)(۱)
نیک و بد،بھلا،برا ،خیر و شرکے ا طلاقات
سائنسی طریقۂ کار Scientific methodیعنی حواس یا حسیات کے ذریعہ حقائق کا اِدراک
’’ مع ہذا ہم اِس عالم میں جس چیز کو نظر اُٹھا کر دیکھتے ہیں،تو ایک حکمتوں کا مجموعہ نظر آتا ہے۔پر بمنزلۂ آلات کاریگروں کے جو ہے،سو اُس سے کوئی نہ کوئی غرضِ خاص متعلق ہے کہ اُسی کی کمی زیادتی پر اُس چیز کا کمال اور نقصان منحصرہے۔گو اور کار اُس سے بخوبی نکلتے ہوں۔مثلاً بسولے سے اصل مقصود لکڑی کا تراشنا ہے۔سو اِس بات میں اگر وہ اچھا ہے،تو اچھا ہے۔اور اگر اُس کا لوہا نرم ہو اور اُس کی آ ب(دھار)تیز نہ ہو،یا اُس کا خم اور چوڑاؤ جیسا چا ہیے،ویسا نہ ہو،تو اُس بسولے کو ناقص کہنے لگیں۔اگر چہ اُس سے مونگری اور ہتھوڑی اور لٹھ کا کام بخوبی نکل سکتا ہو۔‘‘
’’اب غور کیجئے کہ گھوڑے پر-اگرچہ مثل گدھے کے گون لاد سکتے ہیں اور مثل گا ئے بکری کے اُس کو ذبح کر کے کھا سکتے ہیں اور اُس کا دودھ پی سکتے ہیں-پر اِن چیزوں کے ہو نے نہ ہو نے پر کچھ اُس کی بھلائی اور برائی اور کمال و نقصان موقوف نہیں۔جس چیز پر اُس کی خوبی اور برائی منحصر ہے،وہ اُس کی رفتار ہے۔اگر اُس میں اچھا ہے،تو اچھا ہے ۔اور اُس میں برا ہے،تو برا ہے۔ دودھ کی زیادتی اور گوشت کی فربہی اور بوجھ اُٹھانے کو کو ئی نہیں دیکھتا۔ اِسی طرح گا ئے بھینس سے مقصود اعظم دودھ ہے،اُن کی تیز رفتاری اور قدم بازی اور بار کشی پر کسی کو نظر نہیں۔ گلاب کی خوشبو اور رنگ پر مدارِ کار ہے،ذائقے سے کچھ غرض نہیں۔ اور آنب(آم) کے ذائقے سے سروکار ہیٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ،رنگ اور خوشبو سے چنداں مطلب نہیں ۔کتاب کو انسان گو تکیہ بنا سکتا ہے،پر غرض اصلی پڑھنا ہے۔کپڑوں کو جلا کر روٹی پکا سکتے ہیں،لیکن اصل مطلب پہننا ہے۔القصہ،ہر چیز سے ایک مطلوبِ اہم اور مقصودِ اعظم ہے کہ اُس پر اُس کی بھلا ئی برا ئی منحصر ہے۔‘‘
جس بات پر انسان کی بھلائی برائی موقوف ہے،اُس کے دریافت کرنے کا طریقہ:
’’اِسی طرح انسان کو بھی سمجھئے۔پر وہ بات جس پر اس کی بھلائی برائی موقوف ہے،وہ کیا ہے؟یہ کم فہم اپنی فہمِ نا رسا کے موافق عرض کرتا ہے،اگر وہی ہو،تو فبہا۔ورنہ جو اور سب صاحبوں کے نزدیک قرار پا ئے،وہ سہی،مجھے کیا انکار ہے؟کیوں کہ جو میرا مطلب ہے،وہ اِس سے نہ سہی،اُس سے نکل آئے گا۔‘‘(۲)
اصول:۳=انسان کا مقصودِ اہم اور مطلبِ اعظم نفع کے کام کر نا اور نقصان کے کا موں سے بچنا ہے
اِس اصول کے دریافت کرنے کا طریقہ:
------------------------------