اِلتباس پیدا کیا ،اُس کی حقیقت جاننے کے لیے حضرت نانوتوی ؒکی دوکتا بوں کا مطالعہ نہایت مفید ہے:(۱)تقریر دل پذیر(۲)قبلہ نما۔اور مسلمان اہل علم سائنس
کے اعتقاد کے نتیجہ میں جس التباس فکری کے شکار ہوئے،اُن کے استدلال اور مغاطے کے ازلہ کے لیے تصفیۃ العقائد اور الانتباہات المفیدہ کا مطالعہ بالکل کا فی
ہے۔اس سے یہ اندازہ ہو جا ئے گا کہ’’ قوانین فطرت‘‘ اور ’’دمکتی فجر‘‘کے نام پر مسلمانوں کے عقائد کے ساتھ کس خطرناک طریقہ سے رہزنی کی جا رہی ہے۔
اصول قاسم نے بلا خوف تردید، چار دانگِ عالم میں ہل من مبارز کی صدا پھر سے بلند کر کے منادی کر دی ہے
ع- صلا ئے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے
کہ ہر علم و فن سے وابستگانِ اہل علم مسئلۂ مذکور پر نظر ڈالیں اور بتائیں کہ یہ مسئلہ جو کہ شاید نئی تہذیب اورنئے علوم کی رو سے حساس ترین مسئلہ ہے ،اِس
------------------------------
حاشیہ(۱)یہ گفتگوتقریر دل پذیر ص۱۳۸سے شروع ہو کر ص۱۷۲ تک آئی ،اور یہاں بھی ختم نہیں ہوئی ہے؛بلکہ اس کے بعدکامل العقل کی گفتگو شروع ہو گئی ہے۔اولّئک آبائی فجئنی بمثلہم )
مسئلہ کوایسے واشگاف طریقہ پر عہد روشن خیالی،عہدِ جدید اور مابعد جدیدیت(۱۸ ویںسے ۲۰ویں صدی؛بلکہ آج تک ) کے تمام مفکروں میں سے کس مفکر نے وَسَط و اعتدال کے نازک ترین پہلو کومحفوظ رکھ کر ۲ +۲ =۴ کی طرح بیان کر کے یہ بتلا یا ہو کہ :
’’ بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔‘‘’’عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے۔‘‘’’دینِ حق کے کر نے نہ کرنے کی باتیں وہی ہیںجن سے عقلِ صاف او رروح پا ک کو رغبت یا نفرت ہو۔‘‘
اولین و آخرین میں ممتاز عبقری محمد قاسم نانوتویؒ سے،قبل مسئلہ خیر و شر کا راز پانے کے لیے جو بڑا سے بڑا تحقیقی کارنامہ انجام پا یا،وہ ’’افادیت‘‘کا اصول تھا۔اس اصول سے اباحیت پسندی کو فروغ دینے کی کاوش میں اہم ترین نام جرمی بینتھم اور اُس کے شاگرد اِٹو رٹ مل کا ہے۔اور مذہبی رجحان کی طرف لانے والوں میں اہم ترین شخصیت جارج برکلے کی ہے۔اِن کی کاوشوں کا یہ نتیجہ باور کر لیا گیا کہ یہ لوگ ’’افادیت ‘‘کے اصول کے تحت خیرو شر کا مضمون سمجھانے میں کا میاب ہو گئے ہیں۔ لیکن اِن کا حال یہ ہے کہ ایک طرف جہاں پہلا شخص ملحد ہے،تو وہیں دوسرا مفکر حقائق اشیاء کا ہی منکر ہے۔ایک کا سرا یونانی سوففسطائیوں سے ملتا ہے،تو دوسرے کے ڈانڈے جدید لاادری(Skepticist)ڈیکارٹ سے ۔اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اِنہوں نے مسئلہ کے حوالے سے کیا کچھ سمجھا یا ہو گا۔
اختتامی التماس
اِس نمونہ کے دیکھ لینے کے بعد کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اِس سے تو حضرت نا نوتویؒ کے علوم کا کمال معلوم ہوا،اور اس سے پہلے حضرت تھانویؒ کے حوالے سے
بھی اسی کے قریب علوم عقلیہ کی خصوصیات اور استدلال کی خوبیاں ظاہر کی گئی ہیں،تو اس سے تو معلوم ہوا کہ خود اصولوں کے سمجھنے ،اورجزئیات،نیز پیش آمدہ حالات پر منطبق کرنے کے لیے ،اِنبزرگوں کی تصنیفات کا مطالعہ ضروری ٹھہرا۔تو مشفقِ من !خدمت میں عرض یہ ہے کہ یہ نتیجہ بالکل درست ہے۔ زمانے کے افکار،التباسات،مغالطات جس درجہ پیچیدہ ہیں اُن کے ہو تے ہو ئے مذکورہ ہر دو بزرگوں کی تصنیفات سے استفادہ کے بغیر کام چلنے والا بھی نہیں۔اور اِس کے لیے بھی ضروری ہے کہ درسیات میں شامل معقول و فلسفہ عبور کر کے یہاں تک پہنچا جا ئے۔تبدیلیٔ نصاب کے علمبردار اگر اس کے بعد بھی حاملین درسیات کو نصاب کے ترک و تبدیل پر آمادہ کررہے،تو اُن کے پیشِ نظر اِس کے سوا اور کیا ہے کہ ع:ہم تو ڈوبے ہیں.......
فخر الاسلام الہ آ بادی
۳۰/ربیع الآخر ۱۴۳۷ھ=۲۸/جنوری ۲۰۱۷