ایک بات تو یہ،د وسری یہ کہ مولانا ئے موصوف نے جو یہ نفع اور غرض ظاہر کیا ہے کہ علوم عقلی کے ذریعہ:
’’قیل قال،جواب،سوال سے فکری ورزش کراکے طلبہ میں دقیقہ سنجیوں،موشگافیوں کے ملکہ کو اُبھارا جا تا ہے۔ ‘‘،
تومعقولات کا یہ نفع بھی اضافی ہے ۔اُ س کاحقیقی نفع یہ ہے کہ وہ شبہات جو علومِ جدیدہ کی راہ سے پیدا ہوتے ہیں،اُن کے جواب دینے کی صلاحیت اورصحیح اصولوں کے اِجراء و اِطلاق کی قدرت اُن عقلی علوم سے پیدا ہو تی ہے جو درسیات میں شامل ہیں۔چناں چہ
گزشتہ تحریر میں اِس کے نمونے دکھلائے جا چکے ہیں۔ورنہ’’ فکری ورزش‘‘تو ایسی چیز ہے کہ اِ سی لفظ کا سہارا لے کر خود مولانا مناظر احسن گیلانی معقولات کو موقوف و منسوخ فرما چکے ہیں۔اور اِس کے مقابلہ میں سائنس کے مضامین سے چوں کہ زیادہ بہتر طریقہ سے فکری ورزش ہوجاتی ہے۔ موصوف سائنس کی ترجیح کے قائل ہوگئے ہیں۔اس لیے الامام محمد قاسم نانوتوی کی یہ مراد ہے ہی نہیں؛کیوں کہ اِس سے مقصود ہی باطل ہو جا تا ہے جس کا اظہار الامام نے معقولات پر لکھے گئے اپنے مضمون میں کیا ہے؛بلکہ معقولات سے استعدادِ علوم جدیدہ پیدا ہونے سے مراد حضرت کی یہ ہے کہ علوم جدیدہ کی راہ سے پیدا ہو نے والے اعتراض کے جواب کی استعداد پیدا ہوجا تی ہے۔
اب حضرت امامِ قاسمؒ کے اِقتباس کی وضاحت اِس طرح ہوئی کہ جب یہ اصول مسلم ہے کہ جس کسی چیز میں کمال و اِختصاص درکار ہو تا ہے، اُس میں انہماک بھی مطلوب ہو تا ہے،اور جو چیز اُس میں حارج ہو اُس سے صرفِ نظر بھی لازم ہو تا ہے،تو علومِ جدیدہ مفید سہی؛لیکن ،چوں کہ’’زمانۂ واحد میں علوم کثیرہ کی تحصیل،سب علوم کے حق میں باعثِ نقصانِ استعداد رہتی ہے۔‘‘اس لیے’’دینی مدارس میں مشترکہ طور پر اِن علومِ جدیدہ کی تدریس کو حضرت نا نوتویؒ نے خارج از
بحث قرار دیا ۔....(اور) دینی و اسلامی علوم میں خامی کے اندیشہ سے آپ نے یہ فیصلہ فرمایا ور صاف طور پر کہہ دیا کہ جنہیں علوم جدیدہ حاصل کرنے ہیں،وہ وہاں جا ئیں(جہاں اُن کی تعلیم کا بند و بست ہے،یعنی سر کاری تعلیم گاہوںاور یونیورسٹیوں کا رخ کریں۔ف)۔‘‘(سوانحِ قاسمی ص۲۸۱)یہ بات بالکل ایسی ہی ہے جیسے سر سید نے مغربی تعلیم کی ترقی کی کاوش کرتے وقت یہ اعلان صادر فرما یا تھا :’’اِس میں ایک ذرہ شبہہ نہیں کہ اگر ہم کو یہ یقین ہو کہ مشرقی تعلیم کی کسی تجویز سے مغربی تعلیم میں ذرہ بھر بھی کمی ہو گی،تو ہمارا فرض ہے کہ اِس تجویز سے علانیہ نفرت کا اِظہار کر دیں۔‘‘(نصاب تعلیم از شبلی ص۱۴۶)ُلہذا’’ علومِ مروجہ ‘‘کا یہ نفع متعین ہے کہ شبہات خواہ علومِ جدیدہ کی راہ سے پیدا ہوں،یا سائنس کی راہ سے ،یا بدلتے حالات میں نئی تحقیقات،اور تمدن کے نئے اصولوں سے ،شبہات خواہ کیسے ہی ہوں،اُنہی عقلی ا ور کلامی اصولوں سے رفع ہو جا تے ہیں جو فلسفہ اور علمِ کلام میں اور قدیم علوم مروجہ میںموجود ہیں۔
نصابِ درس کی خوبیاں
جہاں تک نصابِ درس کی خوبیوں کا تعلق ہے ،تودرسیات کی اہمیت پر خود علامہ شبلی -جن کی طرف سے درسیات کی مخالفت جگ ظاہر ہے اور جس کاذکر ،ہم کئی بار کر چکے ہیں-کی صراحت بہت اہمیت کی حامل ہے۔’’ علومِ مروجہ ‘‘کی وہ ہیئت جو نصاب درس کی شکل میں ملا نظام الدینؒ نے ترتیب دی تھی،اُس کی بعض خصوصیات کاذکر کرتے ہوئے موصوف نے لکھا ہے کہ اِس نصاب میں :
’’ہرفن کی وہ کتابیںلی ہیں،جن سے زیادہ مشکل اُس فن میں کوئی کتاب نہ تھی۔‘‘’’اِس میں فقہ کی کتابیں جو ہیں اُن میں معقولی
اِستدلال سے کام لیا گیا ہے۔‘‘
’’اِس نصاب میں سب سے زیادہ مقدم خصوصیت جو ملا صاحب کو پیشِ نظر تھی،یہ تھی کہ قوتِ مطالعہ اِ س قدر ر قوی ہو جائے کہ نصاب کو ختم کرنے کے بعد طالب العلم جس فن کی جو کتاب چاہے سمجھ سکے۔‘‘’’اِس سے مقصد یہ تھا کہ غور کی قوت پیدا ہو جائےکہ پھر جس کتاب کو چاہے،دیکھ کر سمجھ سکے۔‘‘ ’’اِس سے کوئی شخص انکار نہیںکر سکتا کہ درسِ نظامیہ کی کتابیں اگر اچھی طرح سمجھ کر پڑھ لی جائیں،توعربی زبان کی کو ئی کتاب لا ینحل نہیں رہ سکتی۔‘‘