اشکال ہوتے ہیںاور یہ سب ناقابلِ اِنقسام ہیںہاں یہ ممکن ہے کہ’’کوئی ایسا صدمۂ عظیم اجسام پر واقع ہو جس سے علاقۂ باہمی فیما بین اجزاء ٹوٹ جا ئے،جیسا قیامت کو بعض مذہب وا لے کہیی ہیں کہ ہو گی،تو بے شک اجزائے غیر منقسمہ تک نو بت پہنچ جا ئے۔(۳۶۷)اور کیا عجب ہے کہ در صورتِ وجودِ اجزاء غیر منقسمہ بھی اول اِنفکاک اور اِفتراق ہو اور پھر اِنعدام ہو جا ئے۔‘‘اور اگر’’اجسام بذاتِ خود متصل واحد ہی ہوں،تب بھی یہ بات تو واجب التسلیم ہے کہ اُن کی حقیقت ایک شکلِ وجودی ہے۔‘‘اور اشکال کا اِنقسام نہیں ہوا کرتا۔‘‘’’ذو شکل میں تحدید ہو نے سے اشکال میں تحدید نہیں ہو تی۔‘‘(۳۶۸)
حاشیہ(۲): خون،بلغم،صفراء،سوداء میں سے ہر ایک کو خلط کہتے ہیں اور عروقِ دمویہ میں، یہ چاروں اجزاء چوں کہ باہم ملے ہو ئے ہو تے ہیں،اِس لیے اِن کو اخلاط کہا جا تا ہے۔
حاشیہ:(۳)ن میں سے کسی خلط کی مقدار یا کیفیت اعتدال سے تجاوز کر جا تی ہے،تو مرض پیدا ہو تا ہے،اور غالب خلط کے مزا جی کیفیات کے لحاظ سے اعراض و علامات ظا ہر ہو تی ہیں۔
حاشیہ(۴)بدن کی عناصر سے ترکیب،عناسر کی تعداد،اجزائے ترکیبیہ کی صورتِ نوعیہ جن پر اُن کے افعال و خواص مبنی ہوتے ہیں۔یہ سب بغیر کامل الفن کے بتلا ئے معلوم نہیں ہو سکتے ۔پھر باعتبارِ اِختلافِ اسبابِ ستہ ضروریہ کے اعتدال و بے اعتدالی کی صورت میں عناصر کے غلبے اور احوالِ بدن کی تبدیلی کی اِطلاع بجز اِس کے کہ اِس فن کا ماہر بتلا ئے نہیں ہو سکتی۔
٭اور جو ایسے عیب ہیں کہ مثل تپِ دق کے اور کو تو کیا،خود اسے بھی نہ معلوم ہوں،اُس کا تو کیا ذکر ہے؟اُن کو حکیم ہی پہچا نے،تو پہچا نے ۔ (۱)
۱ ور پہلے زما نوں کا حال بھی ایسے ہی سنتے چلے آتے ہیں(کہ روحانی طور پر اکثر لوگ مریض اور کم ہی صحت مند ہوا کرتے تھے اور معلوم ہے کہ۔ف):
٭مرض کے وقت اپنی مرغوبات کی طرف رغبت نہیں رہتی،جب تک کہ پھر خدا ئے کریم صحت نہ عنایت فر ما ئے ،(ایک طرف تو یہ ہے۔ف)اور
(دوسر ی طرف۔ف):
٭اکثر ارواح کا حال یہ ہے کہ پیدائش سے امراض ہی میں مبتلا ہیں۔صحت کا نام ہی (بس۔ف)سنے
جا تے ہیں،خدا جانے کیسی ہو تی ہوگی؟سو یہ اپنی مرغوبات کو کیوں کرجا نیں؟ہاں اگر کو ئی ایسا کامل کہ جس کی روح کی صحت اور عقل کی سلامتی ہمیں کسی دلیل سے ثابت ہو جا ئے اور وہ مرغوبات،غیر مرغوبات کی تفصیل بتا ئے،تو کیوں نہیں؟ (اُس وقت مرغوبات کی تجویز کے باب میں نا واقفیت اور اِبہام کا شائبہ نہ رہے گا۔ف)
٭روح اپنی لذت کی غذا سے واقف ہی نہیں:مع ہذا ظاہر کی نعمتوں میں بھی بعد استعمال ہی کے اُن کی طرف رغبت پیدا ہو تی ہے۔اور جن چیزوں کی لذت سے واقف ہی نہیں،نہ کبھی برتا،نہ کبھی اُن کا ذائقہ سنا،تو اُن کی طرف کسی کو رغبت نہیں ہو تی۔سو دین کی با توں کے ذائقے سے اکثروں کوآنکھ کھول کے آج تک کبھی خبر بھی نہ ہو ئی۔
القصہ،اگر کسی کو بندے کی تقریرِ سابق سن کر یہ جی میں سمائے کہ جب دینِ حق مرغوبِ طبیعت کا نام ٹھہرا،تو جس طرف ہما ری طبیعت لے چلے گی،چلیں گے،تو یہ اُن کی عقل کا قصور اور من جملہ امراضِ اروح کے ہے۔بندے کی تقصیر نہیں۔‘‘ (۱۴۹)(کیوں کہ پہلے بتایا جا چکا ہے(ص۱۴۷ پر) کہ طبیعت کی رغبت میں بھی اعتبار عقلِ صاف او رروح پا ک کی رغبت کا ہے۔اُن کا نہیں جن کی رغبت مرض کے زیرِ اثر ہو۔ف)
دینِ حق جب مرغوبِ طبیعت ٹھہرا،تو طبیعت کے موافق عمل درآمد کرنا چا ہیے؟
’’یہ کم عقل اگرچہ عقل سے بہرہ نہیں رکھتا،پر چوں کی اِس تحریر و تقریر میں ہر دم خدا کی طرف ملتجی ہے(اس
لیے)امیدوار ہے کہ یہ تقریر اِکسیر نہیں،تو بالکل خاک بھی نہ ہوگی۔ع دوانہ ہوں و لیکن بات کہتا ہوں ٹھکا نے کی۔
پر جیسے کاملوں سے امید وارِ کلمہ یا خواستگارِ تکلیفِ اصلاح ہوں،ایسے ہی دوسرے صاحبوں سے یوں ملتجی ہوں کہ خدا کے لیے اگر میرا کہا ما نیں،تو بے سوچے سمجھیں اعتراض بھی نہ کریں۔
(۳)تیسرے یہ کہ امراضِ بدنی میں سے اور ہی امراض بیشتر عالم میں واقع ہو تے ہیں اور وباء کے آنے کا اکثر اتفاق ہو تا ہے۔اور امراضِ روحانی میں قطعِ نظر خاص خاص مرضوں کے-مثل: کینہ،حسد،بخل،تکبر،خود پسندی وغیرہ کے اور جو اُن کے لوازم اور آثار میں سے ہیں-وہ مرض عام،جن کو وبا ئے روحا نی کہیے ،اکثرعالم( میں واقع ہو تے۔ف)رہتے ہیں۔تصدیق اِس بات کی اگر مدِّ نظر ہے،تو جس قوم کو چا ہیے،دیکھ لیجیے کہ:
امراضِ روحانی کو مرض نہ سمجھنے کی مثالیں: