(۲)شمس العلماء شبلی نعمانی
یہ تو حالی کے متعلق عرض کیا گیا؛لیکن شبلی بھی اِسی زمرے میں آتے ہیں۔جناب عبد الماجد دریا بادی لکھتے ہیں:
’’شبلی یقیناً خود صاحبِ طرز تھے؛لیکن متاثر وہ بھی علی گڑھ اور بانی علیگڑھ سے ہو ئے تھے۔اور شبلی اسکول بالواسطہ علی گڑھ اسکول ہی کی ایک شاخ ،گو اپنے
خصوصیات کے لحاظ سے ایک ممتاز شاخ ہے۔‘‘(مکتوبات ماجدی)
’’شبلی علی گڑھ میں ۱۵،۱۶ سال رہے۔پانچ برس کے علی گڑھ کے قیام کے بعد شبلی ایک بالکل نئی حیثیت میں اہلِ ہند سے روشناس ہو ئے۱۸۸۷ء
میں اُن کا مشہور لکچر’’مسلمانوں کی گزشتہ تعلیم‘‘،اور ناول کے طرز پراُن کے مشہور تاریخی سلسلے رائل ہیروز آف اسلام کی پہلی تصنیف’’المامون
(اعتزالی رجحانات کا خلیفہ اورمعتزلیوں کا پشت پناہ مامون رشید کے تذکرہ میں ۔ف)شائع ہو ئی۔‘‘(علی گڑھ میگزین نمبر ۱۹۵۳-۱۹۵۵ء ص)
ہم یہ بتلا چکے ہیں کہ موجودہ مغرب زدہ تحقیقی اصولوں کے زیر اثر ادب اور تاریخ اور لٹریچر کیا رخ اِختیار کر چکے ہیں۔جس کی بنا پر ہمارے اکابر کے ذوق کو اِس سے بُعد تھا۔حکیم الامت حضرت مو لانا اشرف علی تھانویؒ مدرسہ مظاہر علوم کے لیے ادیب کی حیثیت سے تقرر کی ضرورت پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’مدرسہ میں ادیب کی ضرورت کے متعلق شرح صدر نہیں ہے۔‘‘(خطباتِ مظاہر ص۳۲)اِس دور حاضر یعنی ۱۹ صدی و مابعد عہود میں ادب ،لٹریچر اور تاریخ کو جو سمت ملی،اُسی سے اُس کی نوعیت بھی متعین ہو جا تی ہے کہ فکر دیوبند میں اِس کا کیا درجہ ہے؟
(۳)محقق عبد الماجد دریابادی
مفسر عبدا لماجددریابادی نے حضرت تھانویؒ سے خاص تحقیق کے متعلق اِستصواب چاہا تھا ۔’’م‘‘اور’’ا‘‘کی علامات کی روشنی میں مراسلت ملاحظہ ہو:
م=’’قرآن مجید میں اعلام جتنے بھی آئے ہیں،اُن سب پرمفصل معلومات خود قرآن مجید ،حدیث،تاریخ اور دیگر علوم سے لے کر یکجا کر دیے جا ئیں۔
ا=میں نے بہت غور کیا،اِس کی کوئی مصلحت معلوم نہیں ہو ئی کہ اُس کو پیشِ نظر رکھ کر غور کرتا۔اگرآپ کے ذہن میں کوئی معتدبہ مصلحت ہو،تو ظاہر فرمائیے۔‘‘
مفسر دریا بادی نے کوئی دینی مصلحت تو ظاہر نہ فرمائی؛بلکہ الٹے خود حضرت کو ہی وقت کے تقاضہ سے بے خبر گردانا:
’’حضرت کے پیشِ نظر بیسویں صدی کے افرنجی المذاق ناظرین کہاں تھے،اور کیسے ہو سکتے تھے؟اِس طبقہ کے ہاتھوں تک تو نسخۂ شفاء اِصلاح پہنچانے کی یہی صورت
ہے کہ’’ڈکشنری آف دی بائبل‘‘اور اِنسائیکلوپیڈیا آف دی بائبل‘‘وغیرہ کی طرح ہما رے یہاں بھی ’’علوم القرآن ‘‘اور ’’اعلام القرآن ‘‘وغیرہ پر مستقل قاموس تیار ہوں۔‘‘
یعنی انگریزوں کی طرح محض معلومات،جس کو عمل اور تصحیح عقیدہ میں کچھ دخل نہیں۔اور محرک و منشا بھی فاسد کہ محض دوسروں کے سامنے علمی اِفتخار کے اظہار کے لیے۔ در حقیقت یہ مغربی خیالات کی نمائندگی ہے؛ مغربی و مشرقی فکر کی یہ مزاحمت مسلمات میں سے ہے کہ:
’’مغربی فلسفہ،مشرقی اور روایتی فلسفہ کو رد کرتا ہے۔مغربی فلسفہ اور سائنسی تہذیب پر مبنی سوسائٹی حقیقت اور سچ کی متلاشی ہو تی ہے؛لیکن صرف جاننے کی حد تک،
قبول کرنا اُس کے مزاج میں نہیں ہے۔ مشرقی سو سائٹی حاصل شدہ سچائی اور حقیقت کو قبول کرنے اور اُن میں اعتدال و توازن کو قائم رکھنے کی حریص ہو تی ہے۔
مغرب، فرد سے متعلق فوائد کی حصول یابی پر زیادہ سے زیادہ زور دیتا ہے(کیوں کہ اُس کے پیش نظر انسان پرستی خیر اعلی ہے)؛جب کہ مشرق معاشرتی ذمہ داریوں
کو ترجیح دیتا ہے۔ ‘‘ (دیکھئے انٹرنیٹ۔ Basics of philosophy)
خیر یہ تو ایک طبی و تمدنی مناسبت و مزاجِ بُلدان کا فرق ہے؛لیکن مفسر دریابادی با لآخر اپنے اخلاف کو یہ نصیحت اور وصیت بھی کر گئے ہیں کہ :
’’یہ کام بہر حال کر ڈالنے کا ہے اور یہاں پہنچ کر میں وصیت کیے جا تا ہوں کہ یہ بے علم و کم سواداگر اِس کے لیے زندہ نہ رہا،تو کوئی اور اﷲ کا بندہ اِس ارادہ
و ہمت کو لے کر اُٹھے اور یہ کام کر کے رہے۔‘‘(نقوش و تاثرات ص۵۵۵)
مگر اصل اِس باب میں حکیم عبد الحی صاحب (والد مفکر و عبقری جناب علی میاں صاحب)کا بھیجا ہوا رسالہ’’الندوہ جلد اول نمبر اول‘‘ہے،اِس میں ندوہ کی ضرورت اورمقاصد مذکور تھے،جس میں سب سے پہلا مضمون تھا ’’ہمارے علوم وفنون‘‘۔اِس پر حضرت تھانویؒ کا تبصرہ فکر دیو بند کی نمائندگی میں اصل اور عمود کی