)عبارت سے متعلق ہے،تو یہ (منطق۔ف)معانی سے مربوط۔پھر کیوں کر کہہ دیجئے کہ علم معانی اور بیان تو جائز ہو،
اور منطق نا جائز ہو۔‘‘(۲)
حاشیہ(۲)حکیم الامت حضت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی مجلس میں ایک شخص نے عرض کیا فلسفہ کارآمد چیز تو ضرور ہے،فرما یا:ہاں،عمقِ نظر و دقتِ فکر اس سے پیدا ہوتی ہے۔‘‘’’محض اِستعداد کے لیے پڑھا یا جا ئے۔،خدا کی نعمت ہیں۔اِن سے دینیات میں بہت معاونت و مد ملتی ہے۔لطیف فرق اِنہی سے سمجھ میں آتے ہیں۔‘‘’’علم کلام میں ،منطق میں مہارت ہو،تو قن حدیث اور فقہ کے سمجھنے میں بڑی سہولت ہوتی ہے۔‘‘’’معقول کو اِس غرض سے پڑھا جاوے کہ اِس سے فہم و اِستدلال میں سہولت ہو جا تی ہے،تو اُس وقت اِس کا وہی حکم ہے جو نحو ،صرف،بلاغت وغیرہ کا حکم ہے؛کہ یہ سب علومِ آلیہ ہیں،اگراِن سے علمِ دین میں مدد لی جا ئے،تو تبعاً اِن سے بھی ثواب مل جا تا ہے۔ ‘‘( :کمالاتِ اشرفیہ ص۲۵۷،ملفوظات جلد ۱ ص۱۴۷،اشرف التفاسیر جلد۴ ص۷۲علی الترتیب)
کیا منطق اور فلسفہ سے شغف رکھنے والے علوم نقلیہ سے بے زار ہو جاتے ہیں؟
{ ’’اور اگر اِشتغالِ منطق گاہ و بے گاہ،یا بعض افراد کے حق میں موجبِ محرومیِ علوم دینیہ ہو جا تا ہے،تو یہ بات صرف و نحو
و غیرہ علوم مسلَّمۃ الاِباحۃ میں بھی بالبداہت مو جود ہے۔‘‘}
کیا اکابر سے منطق اور معقولات کی مذمت منقول ہے؟
{’’جس کسی نے بزرگانِ دین میں سے منطق کو برا کہا ہے،بایں نظر کہا ہے}:
(۱)کم فہموں اور بد فہموں کے لیے مضرہے
لہذا{’’کم فہموں اور کم ہمتوں کے حق میں اِ س کا مشغلہ تحصیلِ علوم دین میں حارج ہو،تو اُس وقت وہ ذریعۂ خیر نہ رہا،
وسیلۂ شر ہو گیا۔‘‘}(۱)
خوداُن بزرگوں کی فہم چوں کہ کامل تھی؛اس لیے اُنہوں نے منطق کی طرف توجہ نہیں کی
{’’یا یہ وجہ ہو ئی کہ خود بہ وجہِ کمالِ فہم اِن بزرگوں کو منطق کی ضرورت نہ ہو ئی،جو(اِس فن کے۔ف)مطالعہ کی نو بت
آتی۔(اس لیے،وہ۔ف)یہ سمجھے کہ یہ علم من جملہ علومِ ایجاد کردۂ حکمائے یو نان ہے،اور اُن (حکمائے یو نان۔ف)
کے ایجاد کیے ہو ئے علوم کی مخالفت کسی قدر یقینی تھی؛اس لیے یہی خیال جم گیا کہ یہ علمِ( معقولات۔ف)بھی مخالفت
ِ دینِ اسلام ہی ہو گا۔۔ورنہ اِس علمِ( معقولات ۔ف)کی حقیقت سے ’ آگاہ ہو تے اور اِس زمانہ کے نیم ملا ؤں کے
اَفہام کو دیکھتے جو چھوٹتے ہی قرآن و حدیث کو لے بیٹھتے ہیں،اور با وجودے کہ قرآن کتابِ مبین ،اور اُس کی آیات واقعی
بیِّنات ہیں،فہمِ مطالب واحکام میں ایسی طرح دھکے کھاتے ہیں،جیسے آفتابِ نیم روز کے ہو تے،اندھے دھکے کھا تے
ہیں۔پھر اُن خرابیوں کو دیکھتے جو ایسے لو گوں کے ہا تھوں دین میں واقع ہو ئی ہیں،ہر گز یوں نہ فرماتے(یعنی منطق و فلسفہ
کو برا نہ کہتے۔ف)؛بلکہ علمائے جامعین کی برکات اور فیوض کو دیکھ کر تو عجب نہیں ،بشرطِ حسنِ نیت بوجہِ توسُّلِ مذکور(کہ
یہ منطق و معقولات خوبیِ اِستدلال،کمالِ اِستدلال،نیز تشحیذِ ذہن کا ذریعہ ہو نے،اور مراداتِ خدا وندی و نبوی کے سمجھنے
میں اور اُن پر پڑنے والے شبہات کے ازالہ میں نافع ہیں۔ف)ترغیب ہی فرماتے۔‘‘(۲)}
------------------------------
حاشیہ(۱)اِس واقعہ کا تذکرہ پہلے ہو چکا ہے کہ جب ’’بعض طلبہ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب سے شکایت کرنے لگے کہ حضرت (گنگوہیؒ)نے فلسفہ کو حرام کر دیا۔فرمایا :ہرگز نہیں؛حضرت نے نہیں حرام فر مایا؛بلکہ تمہاری طبیعتوں نے حرام کیا ہے۔ہم تو پڑھتے ہیں اور ہم کو امید ہے کہ جیسے بخاری اور مسلم کے پڑھنے میں ہم کو ثواب ملتا ہے،ایسے ہی فلسفہ کے پڑھنے میں بھی