باب-۳=فکر دیو بند،تحریک علی گڑھ اورتشکیلِ ندوہ
۱۸۶۷ء سے ۱۹۲۷ ء تک بنیادی افکار کے حوالہ سے جو چند اِدارے ہندوستان میں قائم ہوئے ،وہ یہ ہیں:(۱)دیوبند(۱۸۶۷ء ):خالص دینی اِدارہ(۲)علی گڑھ(۱۸۷۵ء):قومی مسلمانوںکے لیے دنیوی اِدارہ(۳)ندوہ(۱۸۹۸ء ) :دین -دنیاآمیز۔(۴)جامعہ ملیہ اسلا میہ(۱۹۲۱ء)دنیا-دین آمیز۔(۵)مدرسۃ الاصلاح ۱۹۲۷ ء):مذہبی و دنیاوی تعلیم کے ساتھ مسلمانوں کے تمام مکاتبِ فکر کی یکجائی اِس کا نصب العین قرار پائی ۔فراہی کی فکر اِس تحریک کی روح رواں تھی اور شبلی بطور مشیر شامل تھے(یعنی شبلی کے زمانہ میں ۱۹۱۴ء سے پہلے ہی اِس کی تحریک اُٹھ چکی تھی)۔فکری اساس پر اِن پانچ بنیادی اداروں کا وقفہ وقفہ سے قیام ہو ا۔اگرچہ آخر الذکر ادارہ کے بعد ایک اور ادارہ جامعۃ الفلاح کے نام سے۱۹۶۲ء میں قائم ہوا؛لیکن اُس کا نصب العین بھی مدرسۃ الاصلاح کا ہی نصب العین تھا؛صرف فرق اِس قدر تھا کہ اِس کے طریقۂ عمل میں اور منشور کے نفاذ میں نسبۃً زیادہ شدت تھی۔
لیکن اگر غور سے دیکھیں،تو فکریں صرف تین ہیں:(۱)دیوبند:یعنی آخرت مقصودیت کے درجہ میں۔(۲)علی گڑھ: دنیا مقصودیت کے درجہ میں(۳)ندوہ :دین اور دنیا دونوں مقصود۔رہا مسئلہ جامعہ ملیہ اسلا میہ کا،تو وہ در حقیقت وقت کے سیاسی دھارے اور نیشنلزم کی لہر کے تحت قومی اور سیاسی بنیادوں پر علی گڑھ سے علیحدہ ہونے والی تحریک تھی۔علی گڑھ کے ہی افراد نے اسے تشکیل دیا تھا، تحریک کو آگے بڑھانے والے علی گڑھ کے ہی طلبہ اور فضلاء تھے جو علی گڑھ کی ضرورت سے بڑھی ہوئی انگریز نوازی پر معترض تھے۔ پھر اِن تین میں بھی اگر مزید دقتِ نظر سے کام لیں،توصرف دو فکریں اصولی قرار پاتی ہیں۔(۱)دیوبند(۲)علی گڑھ۔وجہ اِس کی یہ ہے کہ خالص دین اور سوائے دین کے اور کچھ پیش نظر نہ ہو۔یہ شان تو دیوبند کی ہے۔(کذا قال حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ)اور اُسی کا تکملہ ہے مظاہر علوم۔باقی دیوبند کے علاوہ جہاں تک دوسرے اداروں کی بات ہے،توعلی گڑھ کا منشور اور اُس کے بعد کے تینوں چاروں اداروں کے منشورا ت ملاحظہ فرمائیے،تو محسوس ہوگا کہ اِ ن سب اداروں اور تحریکوں نے سر سید احمد خاں کے ہی ریفارمیشن (اِصلاحِ مذہب)کے اصولوں کو -کسی قدرتہذیب و تجدید اور جزوی اصلاح و ترمیم اور عنوان کی تبدیلی کے ساتھ- اپنے منشورات میں شامل کیا تھا۔ندوہ کا دعوی کچھ علٰحدہ سا معلوم ہو تا ہے؛لیکن اُس کا ما بہ الامتیاز بھی بس یہی ہے کہ اُس نے مغربی علوم و افکار کی فوقیت و برتری قبول کرنے میں علی گڑھ کی طرح فراخ حوصلگی نہیں دکھائی،اور نہ ہی مغربی تہذیب کے اختیار کرنے اور اُس کی بالا دستی کے قبول کرنے میں اُس کشادہ ذہنی سے کام لیا،جس کے اسیر سر سید ہو چکے تھے ؛لیکن اساسی فکر میں سب متفق ہیں۔اِس کا سراغ اِس سے ملتا ہے کہ سب کے منشور میں فقہِ معین کی تقلید کا انکار،اور اصلاح نصاب شامل ہیں۔انہی دو باتوں کی کامیابی سے مذکورہ سب گروہوں کو دو چیزوں کی امید تھی:
(الف)ایک تو یہ کہ شیعہ،سنی،خارجی،ناصبی،نیچری ،معتزلی کے ما بین تمام فروق وامتیاز ختم کر کے سب کو ملا لیا جا ئے ۔ اُس کا طریقہ یہ ہو گا کہ سب کو پہلے صرف قرآن کے نام سے جوڑا جا ئے گا۔(۱)یہ بات بظاہر ایک مصلحانہ و مخلصانہ قدم معلوم ہوتی ہے؛لیکن اِس کی مضرت کو سمجھنے کے لیے ہم کو ذرا اوپر سے دیکھنا ہوگا ،یعنی عہد سر سید کو ما قبل صدی کے توسیعہ کے طور پر دیکھنا ہو گا،جس کے متعلق ڈاکٹر سید عابد حسین صاحب نے لکھا ہے،اور صحیح لکھا ہے کہ’’انیسویں صدی کا ہندوستان اپنی(فکری) کامیابیوں اور نا کا میوں کے لحاظ سے سترہویں اور اٹھارہویں صدی کا زائیدہ تھا۔(ڈاکٹر سید عابد حسین ص۱۷)اِن صدیوں میں اہلِ مغرب نے بائبل کی سائنس کے ساتھ جو ہم آہنگی قائم کی،وہی ہم آہنگی مسلمانوں نے بلادِ اسلامیہ میں اور ہندوستان میں سائنس کی تطبیق قرآن کریم کے ساتھ دکھانا شروع کر دی،اور یہ کہنا شروع کیا کہ قرآن جو کہ ایک وحی مسطور ہے،اس کی تشریح اُس مرکز سے وابستہ کی جائے گی جو وحی منظور کی شکل میں نظر آرہی ہے، یعنی اُس وحی سے جس کا کائنات میں مشاہدہ ہوتا ہے،بالفاظ دیگر صحیفۂٗ فطرت میں پائے جانے والے اُن قوانین فطرت سے کی جا ئے گی جنہیں اہلِ مغرب نے دریافت کیا ہے۔عقل کا کردار اس سلسلہ میں میزان کا ہو گا؛لیکن یہ عقل وہ ہو گی جو نیچر کے خارجی و باطنی مظاہر پر غور کرکے حقائق اشیاء تک پہنچتی ہو۔رہا حقائق اشیاء تک رسائی کا طریقہ کار،