جس میں نیچرل حالات یعنی اشیاء کی طبعی خصوصیات و خواص ،مادی اسباب اورفطری قوانین(طبعی قوانین) پر اِنحصار کے ساتھ ما بعد الطبیعاتی اسباب و حالات اور روحانی قدروں کا اِ نکار ہو تا ہے۔یہ تو اس کی تعریف ہوئی۔....تاریخی پس منظر کے لحاظ سے اِس کا ابتدئی ظہور مغرب میں نشاۃ ثانیہ کی شکل میں ہوا ۔سب سے پہلے وہ تمام لوگ جو طبعاً کسی قید اور ضابطہ کا پابند ہونا پسند نہ کرتے تھے ،ایسے اباحیت پسندوں نے انفرادیت اور انفرادی آزادی کے عنوان سے تحریک شروع کی ۔اِن کی مذہبی بندشوں سے آزادی کی خواہش نے معاشرہ میں روحانی دینی عقائد کی جگہ ایک نئی اور جداگانہ لہر دوڑائی جس میں اُن انسانی مفادات کے تحفظ کی فکر کی گئی جس میں خدائی احکام کی دخل اندازی نہ ہو۔اس مقصد کے حصول کے لیے دہری قسم کے ادب،سوفسطائی فلسفہ،آرٹ،اورخیالات کو تمام یورپ میں پھیلا یا گیا۔یہی تحریک تھی جو ’’انسانیت(Humanism)‘‘کے نام سے مشہور ہوئی۔
باب-۲=نیچریت (Naturalism)
الف =نیچریت کا پس منظر
نیچریت جسے حکیم الامت حضرت تھانویؒ دینی مزاج کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں،اور فرماتے ہیں کہ:
’’نیچریوں کے دل میں عظمت دین نہیں ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔اور یہ مرض عظمت کی کمی کا متعدی ہے۔ نیچریوں کی مجالست سے فوراً اس کا تعدیہ
ہوتا ہے ۔‘‘(ملفوظات جلد ۱۴ ص۵۳)وجہ اس کی یہ ہے کہ’’نیچری ہرچیز کو عقل کی کسوٹی پرپرکھتے ہیں حالاں کہ وہ کسوٹی ہی کھوٹی ہے۔‘‘
اِس قسم کے فقروں سے حضرتؒ نے اپنے ملفوظات میں نیچریت کی حقیقت اور اُس کا ضرر بیان فرما یا ہے،اس لیے اِس عنوان سے متعلق ایک سیر حا صل گفتگو ضروری ہے ۔
نیچریت جسے انگریزی میں نیچرلزم(Naturalism)کہتے ہیں،اور جسے عہدجدید کی عربی میں ’فطرت‘ کہا جانے لگا۔یہ ایک جدیدفلسفیانہ تصور ہے جس میںنیچرل حالات یعنی اشیاء کی طبعی خصوصیات و خواص ،مادی اسباب اورفطری قوانین(طبعی قوانین) پر اِنحصار کے ساتھ ما بعد الطبیعاتی اسباب و حالات اور روحانی قدروں کا اِ نکار ہو تا ہے۔یہ تو اس کی تعریف ہوئی۔لیکن اصطلاحی اور اِطلاقی حیثیت سے نیچریت کا مفہوم نہایت وسیع ہے،جسے آئندہ ہم واضح کریں گے۔پہلے اِس نیچریت کا تاریخی پس منظر ذکر کیا جا تا ہے۔تاریخی پس منظر کے لحاظ سے اِس کا ابتدئی ظہور مغرب میں نشاۃ ثانیہ کی شکل میں ہوا ۔سب سے پہلے وہ تمام لوگ جو طبعاً کسی قید اور ضابطہ کا پابند ہونا پسند نہ کرتے تھے ،ایسے اباحیت پسندوں نے انفرادیت اور انفرادی آزادی کے عنوان سے تحریک شروع کی ۔اِن کی مذہبی بندشوں سے آزادی کی خواہش نے معاشرہ میں روحانی دینی عقائد کی جگہ ایک نئی اور جداگانہ لہر دوڑائی جس میں اُن انسانی مفادات کے تحفظ کی فکر کی گئی جس میں خدائی احکام کی دخل اندازی نہ ہو۔اس مقصد کے حصول کے لیے دہری قسم کے ادب،سوفسطائی فلسفہ،آرٹ،اورخیالات کو تمام یورپ میں پھیلا یا گیا۔یہی تحریک تھی جو ’’انسانیت(Humanism)‘‘کے نام سے مشہور ہوئی۔
’’انسانیت(Humanism)‘‘ کی حقیقت
ہیومنزم یا ’’انسانیت‘‘سوفسطائی فلسفہ پر مبنی ’’ فلسفیانہ اور ادبی تحریک ہے جو چودہویں صدی عیسوی کے نصف ثانی میں اٹلی میں پیدا ہوئی اور وہاں سے یورپ کے دوسرے ملکوں میں پھیل گئی جو بالآخر جدید ثقافت کی تشکیل کے اسباب میں سے ایک سبب بنی۔‘‘یہ تحریک اپنی اصل کے اعتبار سے وحی الٰہی اور ہدایتِ ربانی کی ضد ہے جس کا مقصد تصور خدا، تصور رسول اور تصور آخرت کو ختم کر دینا ہے۔یہ فلسفہ ایک ایسا رجحان دیتا ہے جو انسانی تجربوں کی تشریحات کو ہر طرح کے فلسفہ کا اولین مرکز توجہ قرار دے کر اس بات پر اصرار کرے کہ اس کام کے لیے انسانی علم کا فی ہے۔اس تحریک کے مقاصد یہ تھے:
(۱)آزادی:ذہنوں کو مذہبی فکر سے ،مذہبی عقائد سے بغاوت پر ابھارنا، ہر طرح کی آزادی اور ہوی و ہوس کی پیروی اِس تحریک کا بنیا دی مقصد تھا۔